رسائی کے لنکس

بلوچستان زلزلہ، متاثرین کا اپنے پیاروں کو بھلانا ناممکن


بلوچستان میں زلزلے سے ہونے والی تباہی کا ایک منظر
بلوچستان میں زلزلے سے ہونے والی تباہی کا ایک منظر

’وہاں سب ختم ہوگیا ہے کچھ نہیں بچا، میری ماں بہن اور بیٹے کوجان بچانے کا موقع نہیں مل سکا اور پورا مکان ان کے اوپر آگرا،‘ بلوچستان زلزلے کے زخمی کی وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو۔

پاکستان میں رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے متعدد اضلاع میں آنے والا زلزلہ کسی قیامت سے کم نہ تھا جس میں 400 افراد زندگی کی بازی ہاربیٹھے اور بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ وہیں زندہ بچ جانے والے زخمیوں کیلئے اس قیامت جیسے سانحے کو بھلانا اب شاید زندگی بھر ممکن نہیں۔

گزشتہ روز کراچی کے سرکاری اور سول اسپتال میں زلزلے سے متاثری متعدد زخمی افراد کو حب کے راستے کراچی منتقل کردیا گیا ہے جہاں ان کو طبی امداد فراہم کی جارہی ہیں۔

سول اسپتال کے بستر پر درد سے کراہتے عطا اللہ رمضان سے آواران میں آنے والے زلزلے نے اس نے اپنی ماں جیسی جنت، پھولوں جیسی بہن اور آنکھوں کی ٹھنڈک اسکا اکلوتا بیٹا اس سے ہمیشہ کیلئے چھین لیا۔

رمضان نے وائس آف امریکہ کی نمائندہ کو بتایا کہ، ’وہاں سب ختم ہو گیا ہے، کچھ نہیں بچا میری ماں بہن اور بیٹے کوجان بچانے کا موقع نہیں مل سکا اور پورا مکان ان کے اوپر آگرا"۔

رمضان آواران میں ڈرائیور کے پیشے سے وابستہ ہے اور اپنے خاندان کی کفالت کرتا تھا زلزلے کے وقت مکانات کی چھتیں دیواریں گرنے سے اسکی ایک ٹانگ مکمل طور پر ٹوٹ گئی ہے جبکہ جسم کے دوسرے حصوں پر بھی زخم آئے ہیں۔

دوسرے وارڈ میں داخل نور خاتون کا حال بھی کچھ مختلف نہ تھا چہرے پر غم کے سائے اور سوالیہ نظریں نور خاتون کے دُکھ کی کہانی سنارہی تھیں زلزلے کے سانحے میں اسکے خاندان کے 3 مرد اور 3 خواتین سمیت اسکے تینوں بچے موت کی ابدی نیند سوچکے ہیں۔

دوسری جانب گوری نامی بلوچی خاتون بھی صدمے کی کیفیت میں مبتلا ہیں اس سانحے میں ان کا بیٹا ان سے جدا ہو گیا۔ ان کے خاندان کی ایک خاتون رشتہ دار جو کراچی کی رہائشی ہیں وی او اے کو بتاتی ہیں کہ، ’یہ گھر میں تھی جب زلزلے کے جھٹکے شروع ہوئے اس نے جان بچانے کیلئے باہر نکلنے کی کوشش بھی کی مگر ناکام رہی جبکہ اسکا بیٹا مدرسے گیا ہوا تھا جہاں درجن سے زائد بچے اس وقت پڑھ رہے تھے کہ زلزلے سے مدرسے کی چھت ان بچوں پر آن گری ایک بچہ بھی نہ بچا ان میں اسکا بیٹا بھی تھا۔‘

نوجوان یار جان کی حالت دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ وہ زلزلے کے تین دن گزرجانے کے بعد بھی زلزلے کے سانحے کے مناظر کو نہیں بھولا اورابھی تک اسی صدمے کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ زلزلے سے متاثرہ علاقے آواران سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان زمینوں پر ہل چلا کر کھیتی باڑی کرتا تھا۔ پیر کے روز معمول کے مطابق دوپہر کے کھانے کے بعد آرام کی نیت سے گھر پر ہی موجود تھا کہ زمین میں ارتعاش پیدا ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے نوجوان کا پورا گھر تباہ ہو گیا، اسکےبعد اسے کچھ یاد نہیں کہ کیا ہوا۔

امدادی ٹیموں نے اسے ملبے سے نکال کر کراچی منتقل کردیا جہاں اسکے نچلے دھڑ اور پیٹ پر شدید زخم آئے ہیں، ڈاکٹروں کے مطابق اسکے زخم اتنے شدید ہیں کہ سرجری کی ضرورت ہے جسکے بعد ہی اسکی حالت سنبھلے گی۔‘

یار جان نے وی او اے کو بتایا کہ، ’خوش قسمتی سے اسکے گھروالے صرف زخمی ہوئے ہیں جنھیں بھی یہیں منقل کیا جائے گا۔‘

سول اسپتال کے ایڈیشنل میڈیکل سپرٹنڈنٹ شکیل ملک وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں بتاتے ہیں کہ، ’سول اسپتال کی ایمرجنسی وارڈ میں بھی الرٹ ہے گزشتہ روز سے اب تک متعدد مریضوں کو یہاں شفٹ کیا گیاہے، بلوچستان میں آنےوالا زلزلہ ایک قومی سانحہ ہےجبکہ سندھ حکومت کی جانب سے زلزلہ متاثرین زخمیوں کیلئے ایک الگ وارڈ بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔‘
XS
SM
MD
LG