امریکہ کے خصوصی ایلچی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے افغانستان میں قیام امن کے لیے ازسر نو کوششیں شروع کر دی ہیں۔ اس ضمن میں وہ بیلجیم، فرانس اور روس کا دورہ کر رہے ہیں۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق، خلیل زاد افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کا جائزہ لینے کے لیے برسلز، پیرس اور ماسکو کے دورے پر ہیں۔
پیر کو جاری کیے گئے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دورے کے دوران خلیل زاد امریکی سفارت کاروں کے ہمراہ یورپی یونین، نیٹو اور اقوام متحدہ کے عہدیداروں سے ملاقاتیں کریں گے، جن میں افغانستان میں قیام امن کے لیے کوششوں میں تیزی لانے کے امکانات کا جائزہ لیا جائے گا۔
زلمے خلیل زاد نے پیر کو برسلز میں واقع نیٹو ہیڈکوارٹر کے دورے کے دوران نیٹو ممالک کے عہدیداروں سے ملاقات بھی کی۔
نیٹو کے لیے امریکہ کی سفیر بیلی ہچیسن نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ خلیل زاد نے افغانستان کی موجودہ صورتِ حال سے متعلق بریفنگ دی ہے۔
انہوں کہا کہ "ایک مستحکم اور پرامن افغانستان کے لیے 'ریزلیوٹ سپورٹ مشن' کے بارے میں نیٹو اتحادیوں کے ساتھ ایک مربوط اور مفصل مباحثہ ضروری ہے۔"
برسلز اور پیرس کے دورے کے بعد خلیل زاد ماسکو بھی جائیں گے جہاں وہ روسی اور چینی حکام سے ملاقاتوں میں افغانستان میں قیام امن کے لیے تبادلہ خیال کریں گے۔
زلمے خلیل زاد نے افغانستان میں قیام امن کی نئی کوششیں شروع کرنے سے قبل گزشتہ ہفتے واشنگٹن میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملی سمیت دیگر فوجی حکام سے ملاقاتیں بھی کی تھیں۔
ملاقات کے بعد ایک ٹوئٹ میں خلیل زاد نے کہا کہ امریکہ کی فوجی قیادت سے ملاقات کے دوران افغان تنازع کے ایسے سیاسی حل پر اتفاق کیا گیا ہے، جس سے امریکہ دہشت گردی کے خطرات سے محفوظ رہ سکے۔
یاد رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونے والے ایک خود کش حملے کے بعد امریکہ اور طالبان کے درمیان رواں سال کے آغاز سے جاری امن مذاکرات معطل کر دیے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی تھی۔ تاحال امریکہ کی طرف سے افغان طالبان کے ساتھ امن مذکرات کے بحال ہونے کا کوئی عندیہ نہیں دیا گیا.
البتہ، افغان امن مذاکرات معطل ہونے کے بعد امریکہ کے نمائندہ خصوصی خلیل زاد نے اکتوبر کے اوائل میں اسلام آباد کا دورہ کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق، انہوں نے پاکستان میں موجود طالبان کے نمائندوں سے ملاقات بھی کی تھی۔ لیکن باضابطہ طور پر فریقین کی جانب سے اس ملاقات کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی تھی۔