رسائی کے لنکس

مصر: چیف جسٹس نے عبوری صدر کا حلف اٹھا لیا


عبوری صدر عدلی منصور
عبوری صدر عدلی منصور

حلف اٹھانے کے بعد عبوری صدر نے ملک میں نئے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات بھی کروانے کے عزم کا اظہار کیا۔

مصر میں فوج کی طرف سے صدر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ملک کی اعلٰی آئینی عدالت کے چیف جسٹس عدلی منصور نے جمعرات کو بطور عبوری سربراہ مملکت کے حلف اٹھایا۔

صدر مرسی کی حکومت کے خلاف احتجاج کے بعد بدھ کی شب فوج نے حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ملک کے آئین کو معطل کر دیا تھا۔

آئین معطل ہونے کی وجہ سے عدلی منصور نے پہلے آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور پھر عبوری صدر کا حلف اٹھایا۔ انھوں نے اس موقع پر محمد مرسی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کو سراہا۔

حلف اٹھانے کے بعد عبوری صدر نے ملک میں نئے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات بھی کروانے کے عزم کا اظہار کیا۔

فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے حزب اختلاف کی ’لبرل اور سیکولر‘ جماعتوں کے علاوہ ملک کے مذہبی رہنماؤں کی موجودگی میں سرکاری ٹی وی پر براہ راست خطاب میں کہا تھا کہ آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی قیادت میں عبوری حکومت ’ٹیکنو کریٹس‘ پر مشتمل ہو گی۔


اُنھوں نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ ایک کمیٹی صدر مرسی کے دور حکومت میں اسلام پسندوں کی اکثریت والی اسمبلی کی طرف سے منظور کیے جانے والے آئین کا بھی جائزہ لے گی۔

محمد مرسی کی جماعت اخوان المسلمین نے فوج کی اس مداخلت کو ’فوجی بغاوت‘ قرار دیا ہے۔

ادھر برطرف کیے جانے والے صدر مرسی کی جماعت اخوان المسلمین نے ان کے حق میں قاہرہ میں دھرنا دیا۔

اخوان المسلمین کے ایک رہنما محمد البلطغی نے کہا کہ فوج کی طرف سے منتخب صدر کو برطرف کیے جانے سے ملک میں پرتشدد مزاحمت شروع ہو سکتی ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت ایسا نہیں کرے گی۔

’’مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے بھائی (اخوان المسلمین کے ارکان) جیل میں ہوں یا باہر، بھائیوں نے پہلے بھی طویل عرصے کی جیلیں کاٹی ہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ایسی بدامنی کی فضا بنتی جارہی ہے کہ جس میں اخوان المسلمین کے علاوہ دیگر گروپ طاقت کے زور سے تبدیلی کے رویے کی طرف جائیں گے۔‘‘

اس سے قبل فوج کی طرف سے حکومت کا تختہ اُلٹنے کے بعد محمد مرسی کی حکومت کے خلاف مظاہروں میں شامل لاکھوں افراد قاہرہ اور دیگر شہروں میں جشن مناتے نظر آئے۔

30 جون 2012 کے انتخابات میں اخوان المسلمین کی کامیابی کے بعد محمد مرسی صدر منتخب ہوئے تھے، لیکن ان کے ایک سالہ دور اقتدار میں نہ صرف معیشت ابتری کا شکار رہی بلکہ ملک سیاسی طور پر بھی کشیدگی کا شکار رہا ہے۔

محمد مرسی کی حکومت کے پہلے سال کے خاتمے پر ہی ملک میں مظاہرے شروع ہو گئے اور سیاسی بحران میں شدت آنے کے بعد فوج نے حکومت سے کہا تھا کہ مظاہرین کے تحفظات دور کرنے کے علاوہ سیاسی اختلافات دور کرے۔

اس ضمن میں فوج نے حکومت کو 48 گھنٹے کی حتمی مہلت دی تھی جس کے خاتمے پر مرسی کی حکومت تختہ اُلٹ دیا گیا۔
XS
SM
MD
LG