مصر کی سیاست میں انقلابی تبدیلیوں کے بعد صوفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو تشویش لاحق ہے کہ مصر کی سیاست میں اسلامی انتہا پسند نظریات فروغ پا رہے ہیں۔ صوفی مسلمان مصر میں ایک روادار معاشرے کی ترویج کے لئے قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں ایک ریلی کا انعقاد کر رہے ہیں۔
ان صوفی مسلمانوں کا نعرہ ہے ’مصر کی محبت کی خاطر‘ اوروہ مصر میں ایسی نئی حکومت کے حق میں ہیں جو تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلے نہ کہ صرف اسلام کے انتہا پسند نظریات ماننے والوں کو۔
ٕمصر میں اضمایہ صوفی دھارے سے تعلق رکھنے والے اس گروہ کی تنظیم کا نام الحریر ہے اور اس کے سربراہ الا ابو العزائم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی تنظیم نے پہلی مرتبہ یہ تحریک گزشتہ ماہ کے اواخر میں مذہبی انتہا پسند گروہوں کی جانب سے منعقد کئے جانے والے مظاہروں کےجواب میں شروع کی ہے جن میں ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی۔
ابو العزائم کہتے ہیں کہ29 جولائی کے ٕمظاہرے سے ٕملک میں بسنے والے تمام ٕمصریوں بشمول مسلمانوں اور عسائیوں کو فکر لاحق ہوئی کہ اگر انتہا پسند نظریات ماننے والے لوگوں کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو یہ لوگ ان تما م لوگوں کو’ غائب‘ کردیں گے جو ان کی ٕمخالفت کریں گے۔
اس تشویش کا اظہار کرنے والوں میں ابو العزائم کی تنظیم اکیلی نہیں۔ سلفی اوروہابی مسلکوں سے تعلق رکھنے والےگروہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ مصر کا نیا آئین شرعی قوانین کی روشنی میں تشکیل دیا جائے جس کی وجہ سے مصری عسائیوں اور اعتدال پسند مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
سلفی اور وہابی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی کئی تنظیموں نے ایک اجتماعی افطار میں شرکت کو بھی ملتوی کر دیا ہے اور تمام گروہ اس سرکاری اعلان کے منتظر ہیں جو آئین کی تشکیل سے متعلق ہے۔
مگر صوفی رہنما ابو العزائم کا کہنا ہے کہ سیاسی بات چیت میں انتہا پسند عناصر کا حاوی ہونا بذات خود ٕمصر کے لئےایک مسلہ ہوگا ۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ ماہ مسلمان انتہا پسند گروہوں کے مظاہروں کے بعد مصری سٹاک ایکسچینج میں مندی اسی امر کی نشاندہی کرتی ہے۔
ابو العزائم تحریر اسکوائر میں مظاہرے کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کا مقصد مصری عوام کو باور کرانا ہے کہ ملک میں ایک پر امن طاقت موجود ہے جو دوسرے گروہوں اور اختلافات کو قبول کرنے کو تیار ہے۔
مذہبی اقلیتوں اور اعتدال پسند جماعتوں کا کہنا ہے کہ جنوری میں ہونے والے احتجاجی ٕمظاہروں میں انتہا پسند جماعتوں کا کوئی اہم کردار نہیں تھا مگراب وہ سیاسی عمل کو ہائی جیک کر نے کی کوشش کررہے ہیں۔ سلفی مسلک کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ جمہوری عمل اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرتے ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مصر میں اسلامی ریاست فروغ پائے گی۔
ٕٕسلفی گروہوں کی جانب سے مختلف شہروں میں مسیحی فرقوں کی عبادت گاہوں ،صوفی زیارتوں اور پرانی تہذیب کے مقامات پر حملوں کے بعد پر امن بقائے باہمی پر کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔
مصر کی موجودہ فوجی حکومت نے قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں ہر قسم کے مظاہرے ختم کرنے پر زور دیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں تیس سال سے نافذ ہنگامی صورتحال ختم کرنے کے لئے حکمت عملی وضح کر رہے ہیں۔
سابقہ دور میں ٕمذہبی گروہوں پر سیاسی جماعتیں تشکیل دینے اسر سیاسی عمل میں حصہ لینے پر پابندی تھی اور ہنگامی قوانین کے تحت بہت سی اسلامی جماعتوں کے رہنماؤں کو پابند سلاسل رکھا گیا تھا۔