قاہرہ میں جب الشاطر نے اپنی اُمیدواری کے کاغذات باقاعدہ طور پر جمع کرائے، تو ان کے حامیوں نے پُرجوش نعرے لگائے۔ لیکن اقلیتی پارٹی کے بعض ارکان اور بیرونی مبصروں کو تشویش ہے کہ اخوان المسلمین ملک میں اقتدار پر مکمل پر قبضہ کرنے کے اور نزدیک آ گئے ہیں۔
Marina Ottaway واشنگٹن میں Carnegie Endowment for International Peace میں مشرقِ وسطیٰ کی ماہر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اخوان نے یہ وعدہ کرنے کے بعد کہ وہ اپنا صدارتی اُمیدوار نامزد نہیں کریں گے، انتخاب میں اپنا اُمیدوار کھڑا کرنے کا اعلان کرکے کوئی غیر قانونی کام تو نہیں کیا، لیکن بہر حال، اسے اخوان کا بہترین اقدام نہیں کہا جا سکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’میرے خیال میں ایسا کرنا دانشمندی کے خلاف تھا کیوں کہ اس طرح مصر میں اخوان المسلمین کے رول کے بارے میں جو تشویش پائی جاتی ہے، اس میں اور اضافہ ہو گیا ہے۔‘‘
اخوان المسلمین مصر کی سیاست میں غالب قوت ثابت ہو رہی ہے اور پارلیمینٹ کی تقریباً نصف نشستیں اس کے پاس ہیں۔ یہ پارٹی بہت اچھی طرح منظم ہے، خاص طور سے اگر اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ گذشتہ سال مصر کے صدر حسنی مبارک کے زوال کے بعد تک، اس پارٹی پر پابندی عائد تھی۔
Ottaway کہتی ہیں کہ انہیں اخوان کے اس فیصلے میں کہ وہ اپنا صدارتی اُمید وار کھڑا کریں، کوئی شر انگیز بات نظر نہیں آتی۔ سیاستداں اکثر اپنے ارادے بدلتے رہتے ہیں خاص طور سے ایسے وقت میں جب سیاسی مہمیں چل رہی ہوں۔ ان کے مطابق ’’حازم ابو اسمٰعیل نے جو سلفی ہیں، خود کو اُمیدوار کے طور پر پیش کیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ انتخاب سے قبل وہ بہت مقبول ہیں۔ لہٰذا اس سلسلے میں کچھ تشویش موجود تھی کہ کوئی انتہا پسند اسلامی اُمیدوار یہ انتخاب نہ جیت جائے۔‘‘
جب الشاطر نے اپنی اُمیدواری کے کاغذات داخل کیے، تو اس کے ساتھ ہی اس اسلامی پارٹی کے نمائندوں نے یہاں واشنگٹن میں محققین، رپورٹروں اور سرکاری عہدے داروں کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا۔ اخوان المسلمین کے نمائندوں نے اس ہفتے کے دوران بند دروازوں کے پیچھے سرکاری عہدے داروں کے ساتھ کئی میٹنگیں کی ہیں اور وہ کئی عام جلسوں میں بھی آئے ہیں جن میں انھوں نے اپنی پارٹی کو اعتدال پسند اور کثیر الجماعتی نظام کا پابند قرار دیا ہے۔
تاہم اخوان اپنے وعدے سے پھر گئے کہ وہ نیا آئین بنانے کے عمل میں مختلف آوازوں کو شامل کریں گے۔ لبرل اور مسیحی گروپس نیز اسلامی اسکالرز اس محدود رول سے دستبردار ہو رہے ہیں جو اسلام پسندوں نے انہیں پیش کیا ہے۔
Carnegie Endowment کی کانفرنس میں، اخوان کی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے غیر ملکی تعلقات کے کوآرڈینیٹر، خالد القزاز نے حاضرین میں سے ایک شخص کے اس خیال کی تردید کی کہ اسلام پسند صرف اس وقت تک جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں جب تک وہ اقتدار میں نہیں آ جاتے۔
قزاز نے کہا کہ اخوان کی پوری کوشش ہے کہ مصر کے سیاسی نظام میں آمریت کو روکنے کے لیے اختیارات پر پابندیوں اور توازن کا پورا انتظام ہو۔ انھون نے کہا کہ ’’ہم واقعی ایسا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنا صدارتی امیدوار کھڑا کیا ہے۔ ہم اس بات کی ضمانت دیتے ہیں۔‘‘
قزاز نے کہا کہ الشاطر پارلیمانی نظام کے زبردست حامی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ بات مصر کی صدارت کے دوسرے اُمیدواروں کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔
مصری علما کے کے مطابق، الشاطر شرعی قانون پر فوری طور پر عمل در آمد کے بھی حامی ہیں، اگر وہ مئی میں صدر منتخب ہو جاتے ہیں۔
اخوان المسلمین کے قزاز کہتے ہیں کہ لوگ اکثر اسلامی قانون کے اصولوں کو سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ اصول آزادی، انصاف، جمہوریت، قانون کی حکمرانی وغیرہ کی آفاقی اقدار کے خلاف نہیں ہیں۔ یہ سب چیزیں شریعت کے مطابق ہیں۔ ان میں اور شریعت میں کوئی تضاد نہیں ہے۔‘‘
قزاز نے کہا کہ اسلامی اقدار مصر کی پہچان ہیں، بالکل اسی طرح جیسے یورپ اور امریکہ میں دوسرے مذاہب کی اقدار سے سیاسی اور ثقافتی شناخت کا تعین ہوتا ہے۔