قاہرہ میں ہر طرف، ہر سماجی اور اقتصادی طبقے سے تعلق رکھنے والی عورتیں مختلف قسم کے اسلامی حجاب استعمال کرتی ہیں، اور یہ رواج حالیہ عشروں میں اور نمایاں ہو گیا ہے۔ تقریباً 100 برس پہلے، مصری عورتوں نے حجاب سے نکلنے کی جد و جہد کی تھی۔
لیکن عمرانیات کے مصری ماہر، سعد الدین ابراہیم کہتے ہیں کہ اس رواج کا احیاء ہوا ہے ۔ ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اب زیادہ عورتیں حجاب لینے لگی ہیں یا پردہ کرنے لگی ہیں۔ مصر کی جدید تاریخ میں اتنی بڑی تعداد میں عورتوں نے اسلامی حجاب کو نہیں اپنایا تھا۔‘‘
پروفیسر ابراہیم نے طالبات اور کام کرنے والی خواتین میں 30 سال قبل حجاب کی واپسی کے ابتدائی دنوں کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے۔
’’حجاب لینا ایک طرح سے ایک سمجھوتہ تھا کہ خواتین روز مرہ کی زندگی میں پوری طرح شرکت کریں اور ان کے بارے میں یہ بھی نہ سوچا جائے کہ ان کا چال چلن خرا ب ہے۔ اگر اس کی قیمت حجاب کی شکل میں ادا کرنی ہے، تو بہت سے عورتیں، بہت سی نوجوان لڑکیوں نے یہ سودا قبول کر لیا ہے۔‘‘
اس رجحان کے آثار قاہرہ کی سڑکوں پر ہر طرف نظر آتے ہیں۔ نوہا سمیر وکیل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انھیں حجاب لیتے ہوئے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔
’’حجاب دیکھنے میں اچھا لگتا ہے اور مجھے اس میں آرام ملتا ہے۔ میں اسلام پر کاربند ہوں، لیکن میں کچھ حدود میں رہتے ہوئے فیشن بھی کر سکتی ہوں۔‘‘
بعض دوسری عورتوں نے، جیسے سوشل ورکر Magda Abdo el Zayad نے پختہ عمر کو پہنچ کر حجاب لینا شروع کیا۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ ان کی غیر شادی شدہ بیٹی ابھی سے حجاب لیتی ہے۔
’’ہماری عمر زیادہ ہوئی تو ہم نے اپنے مذہب کے بارے میں سیکھنا شروع کیا۔ لیکن میری بیٹی تو ابھی سے حجاب لیتی ہے۔ جب میں اس پر زور دیتی ہوں کہ وہ کبھی کبھی بغیر حجاب لیے چلی جائے، تو وہ انکار کر دیتی ہے۔ وہ کہتی ہے کہ حجاب کے بغیر وہ خود کو برہنہ محسوس کرے گی۔‘‘
ماہرین کہتے ہیں کہ سماجی اور مذہبی قدامات پسندی میں کچھ اضافہ سعودی عرب کے اثرات سے ہوا ہے۔ لاکھوں مصری وہاں کام کرنے گئے اور جب وہاں سے لوٹے تو ان کی سوچ بدل چکی تھی۔
لیکن Center for Egyptian Women کی Azza Soliman کہتی ہیں کہ یہ تبدیلی خود عورتیں بھی لائی ہیں، اور اس کا تعلق ملک کی حالیہ تاریخ سے ہے۔
’’حکومت جو کچھ فراہم کرتی تھی اور لوگ جو چاہتے تھے اسکے درمیان فرق تھا۔ لہٰذا، اس فرق کو دور کرنے کے لیے لوگ مذہب کی طرف متوجہ ہوئے۔ بہت سی عورتوں نے اپنے نئے مذہبی احساسات کے اظہار کے لیے حجاب لینا شروع کر دیا۔‘‘
لیکن بیشتر مصری عورتیں نقاب نہیں ڈالتیں جس سے سوائے آنکھوں کے پورا چہرہ ڈھک جاتا ہے۔ وہ حجاب لیتی ہیں جس سے بال اور گردن چھپ جاتی ہے ۔ اور بہت سی عورتیں کہتی ہیں کہ وہ حجاب کے ساتھ بھی فیشن ایبل ہو سکتی ہیں۔
سمیعہ حجازی کہتی ہیں کہ ’’ہم حجاب لینے کے ساتھ ساتھ خوش لباس کیوں نہیں ہو سکتیں؟ حجاب لینے کا مطلب یہ تو نہیں کہ آپ اچھے کپڑے پہننے پر پابندی لگا لیں۔‘‘
ایک اور خاتونِ خانہ، دینا، کہتی ہیں اگر کوئی عورت حجاب لیتی ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ وہ برے کپڑے پہنے۔ حجاب کے ساتھ پہننے کا بڑا اچھا لباس دستیاب ہے۔‘‘
اخبار کی ایڈیٹر رانیہ المالکی کہتی ہیں کہ ان کے نزدیک اس میں کوئی تضاد نہیں ہے کہ آپ کا جسم ڈھکا ہوا ہو اور آپ ایک کامیاب پیشہ ور خاتون ہو یا سرگرم سیاسی کارکن ہوں۔
’’میرے نزدیک اس سے معاشرے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ بعض اوقات، عورتیں جب حجاب میں ہوتی ہیں تو وہ خود کو زیادہ بااختیار اور زیادہ محفوظ سمجھتی ہیں۔ نوجوانوں کی تحریک میں بعض اہم شخصیتیں نوجوان عورتیں تھیں جو حجاب میں تھیں۔‘‘
مشہور مصری صحافی Hisham Kassem کہتے ہیں کہ اہم بات یہ نہیں ہے کہ کسی عورت نے کیا کپڑے پہن رکھے ہیں، بلکہ یہ ہے کہ اسے معاشرے میں پورے حقوق حاصل ہیں یا نہیں۔
’’بعض کیسوں میں عورتیں حجاب میں نہیں تھیں لیکن انھوں نے معاشرے میں کوئی رول ادا نہیں کیا۔ لیکن جب میں کسی حجاب والی عورت کو باہر سڑکوں پر مظاہرہ کرتے دیکھتا ہوں، تو یہ وہ عورت ہوتی ہے جو کچھ کرنا چاہتی ہے۔ اہم چیز لباس نہیں ہے، بلکہ وہ رول ہے جو یہ عورتیں ادا کرنا چاہتی ہیں۔ برابری اسی طرح ملے گی۔ اس طرح نہیں کہ عورتیں حجاب ترک کردیں، لیکن کسی چیز میں سرگرمی سے حصہ نہ لیں۔‘‘
یہ خیالات عورتوں کی آزادی کے مغربی خیالات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ اپریل میں پولیس نے فرانس میں ایک عورت کو چہرہ ڈھکنے پر حراست میں لے لیا تھا کیوں کہ اس نے ایک قانون کی خلاف ورزی کی تھی جس کا مقصد عورتوں کے حقوق کا فروغ ہے۔
تاہم اب جب کہ مصری جمہوریت کے ابتدائی دور میں اپنے لیے راہ تلاش کر رہے ہیں، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ حجاب اس کوشش کا حصہ ہو سکتا ہے، بلکہ ایسا ہی ہونا چاہیئے۔