ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ اگر شمالی شام سے کرد فوجیں مقررہ وقت تک نہ نکلیں تو فوجی کارروائی دوبارہ شروع کر دیں گے۔
جمعے کو استنبول مین ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے رجب طیب ایردوان کا کہنا تھا کہ اگر منگل تک 'سیف زون' کا مسئلہ حل نہ ہوا تو ترکی ایک بار پھر فوجی کارروائی شروع کر دے گا۔
خیال رہے کہ جمعرات کو امریکہ کے نائب صدر مائیک پینس کے دورہ ترکی کے دوران امریکہ اور ترکی نے پانچ روز کے لیے شمالی شام میں جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔ جس کے تحت کرد جنگجوؤں کو منگل تک سیف زون سے نکلنے کی مہلت دی گئی تھی۔
صدر ایردوان کا کہنا تھا کہ حفاظتی اقدامات کے تحت ترک فوج علاقے میں موجود رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ تاحال فوج کو کسی بڑی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
جنگ بندی کے باوجود عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق شمالی شام میں جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے نمائندے کا کہنا ہے کہ جمعے کی صبح بھی شمالی شام کے علاقے راس العین میں گولہ باری کی گئی۔
شام میں انسانی حقوق کے ادارے نے کہا ہے کہ ترک فضائیہ کی بمباری کے نتیجے میں راس العین کے علاقے باب الخیر میں پانچ شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
جنگ بندی معاہدے پر یورپی یونین کی تنقید
یورپی یونین نے امریکہ اور ترکی کے درمیان طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کو نام نہاد اور ناقص قرار دیا ہے۔ یورپی یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے معاملے پر ترکی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہا۔ لہذٰا ترکی پر واضح کرتے ہیں کہ وہ شمالی شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف اپنی فوجی کارروائی مکمل طور پر روک دے۔
ڈونلڈ ٹسک کا کہنا تھا کہ یہ نام نہاد جنگ بندی کا معاہدہ درحقیقت کرد جنگجوؤں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ترکی پر زور دیتے ہیں کہ مستقل جنگ بندی کرتے ہوئے اپنی فوج اس علاقے سے نکالے۔
فرانس کے صدر ایمنوئل میکرون نے بھی ترکی کی شمالی شام میں فوجی کارروائی کو 'پاگل پن' قرار دیتے ہوئے اعتراف کیا کہ نیٹو الائنس ترکی کو اس اقدام سے باز رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ خیال رہے کہ ترکی بھی نیٹو الائنس کا حصہ ہے۔
ترکی نے نو اکتوبر کو شمالی شام میں فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ ترکی شمالی شام کے 32 کلومیٹر کے علاقے میں کرد اور وائی پی جی جنگجوؤں کا خاتمہ چاہتا ہے۔ جو اس کے نزدیک ترکی کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ ترکی ان جنگجو گروہوں کو کردستان ورکرز پارٹی کا حصہ سمجھتا ہے جو ترکی میں کردستان کے نام سے الگ ریاست قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔
ترکی کی یہ خواہش ہے کہ اس 'سیف زون' میں وہ ان 35 لاکھ شامی مہاجرین کو بھی آباد کرے جو شام میں جاری جنگ کے باعث پناہ کے لیے ترکی میں موجود ہیں۔ ترکی کے صدر نے جمعے کو واضح کیا ہے کہ یہ سیف زون شمالی شام میں 32 کلو میٹر اندر جب کہ اطراف میں 444 کلو میٹر کا علاقہ ہو گا۔
صدر ایردوان کا کہنا ہے کہ آئندہ ہفتے روس کے صدر ولادی میر پوٹن سے ملاقات میں موجودہ صورتِ حال پر تبادلہ خیال کریں گے۔
اب تک کن علاقوں میں ترکی کارروائی کر چکا ہے؟
ترکی کے صدر کا کہنا ہے کہ ترکی کی سرحد سے ملحقہ شمالی شام کے علاقے راس العین اور تل ابایاد کا کنٹرول اب ترکی کے پاس ہے۔ تاہم یہ کافی نہیں ضرورت پڑنے پر ترک فوج مزید پیش قدمی بھی کرے گی۔
نو اکتوبر کو شروع ہونے والی اس فوجی کارروائی کے باعث ہزاروں افراد شمالی شام سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ کرد جنگجوؤں کا یہ الزام ہے کہ ترکی کی فوجی کارروائی کے باعث شہری اموات بھی ہوئی ہیں۔
خیال رہے کہ امریکہ شمالی شام میں ترک جنگجوؤں کی حمایت کرتا رہا ہے۔ تاہم چند روز قبل امریکہ کے صدر نے ان علاقوں سے فوج کو نکال لیا تھا۔ ناقدین نے صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کو کردوں کی پیٹھ میں چھرا گونپنے کے مترادف قرار دیا تھا۔ ترک جنگجو امریکی فوج کے ساتھ مل کر ماضی میں ان علاقوں سے دولت اسلامیہ(داعش) کا قلع قمع کرتے رہے ہیں۔