ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے شام کے شمال میں کرد ملیشیا کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔ امریکہ نے ترکی کے اس ممکنہ اقدام کی مخالفت کی ہے۔
ترک صدر حالیہ دنوں میں خبردار کرتے رہے ہیں کہ ترکی کی فوج وائی پی جی (YPG) نامی ملیشیا کے خلاف آپریشن کی تیاری کر رہی ہے۔ خیال رہے کہ امریکہ اس جنگجو گروپ کی حمایت کرتا آ رہا ہے۔ امریکہ کا یہ موقف رہا ہے کہ وائی پی جی شام میں دولت اسلامیہ(داعش) کے خلاف سرگرم ہے۔
ترکی کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے بیان میں رجب طیب ایردوان نے کہا کہ ترکی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے ہر گروہ کا خاتمہ کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ "اگر خدا نے چاہا تو ہم بہت جلد شام میں موجود گروپوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کریں گے۔"
امریکی وزارت دفاع کے حکام ترک حکام کے ساتھ انقرہ میں ایسے بفر زون معاہدے کے لیے سرگرم ہیں جس کے ذریعے ترکی کو شام میں فوجی حملے سے روکا جا سکے گا۔
امریکہ کے سیکرٹری دفاع مارک ایسپر نے ٹوکیو میں ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ "شام سے متعلق ترکی کا کوئی بھی یک طرفہ اقدام ناقابل قبول ہو گا۔"
مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہم کسی ایسے قابل عمل سمجھوتے پر پہنچ جائیں جس کے ذریعے ترکی کے خدشات بھی دور ہوں اور وہ کسی بھی مہم جوئی سے باز رہے۔
ترک حکام کے مطابق، وہ امریکہ کی 'سیف زون' پیش کش سے مطمئن نہیں ہیں، کیوں کہ اس میں ایسی کوئی یقین دہانی نہیں ہے کہ وائی پی جی ملیشیا ترک بارڈر سے دور رہے گی۔
ترکی وائی پی جی کو ترکی میں کردوں کی علیحدگی پسند تحریک کردستان ورکرز پارٹی یا (پی کے کے) کا حصہ سمجھتا ہے۔ یہ تحریک 1978 سے جاری ہے اور اس کا مقصد ترکی سے الگ ہو کر کردستان کے نام سے الگ ریاست کا قیام ہے۔
رجب طیب ایردوان کا کہنا تھا کہ نیٹو کا اتحادی ملک ہونے کے ناطے ترکی امریکہ سے اس ضمن میں تعاون چاہتا ہے۔ ان کے بقول "شمالی شام سے ترکی کے لیے خطرہ بننے والے دہشت گردوں کا خاتمہ اس کی اولین ترجیح ہے۔"
ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق شام سے ملحقہ سرحد کی جانب فوج کی پیش قدمی جاری ہے۔ اسلحے اور دیگر جنگی ساز و سامان سے لیس گاڑیاں بھی سرحد کی جانب رواں دواں ہیں۔
ترکی اس سے قبل دو دفعہ وائی پی جے کے خلاف کارروائی کر چکا ہے۔ 2016 اور 2018 میں ہونے والی کارروائیوں میں ترک فوج نے شمالی شام میں کرد ملیشیا کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔
ترکی امریکہ پر بھی یہ زور دیتا آیا ہے کہ وہ وائی پی جے کی حمایت ترک کر دے۔ تاہم، امریکہ کا یہ موقف رہا ہے کہ یہ تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف لڑنے والے گروپوں میں سر فہرست ہے۔