ایتھوپیا نے ملک بھر میں فاصلاتی تعلیم پہ پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ نجی جامعات کو قانون اور تعلیم کے شعبہ جات میں ڈگری کورسز کرانے سے روک دیا ہے۔
ایتھوپیا کی وزارتِ تعلیم کی جانب سے جاری ہونے والے ایک حکم نامے میں فاصلاتی تعلیم کے ذریعے علم حاصل کرنے کے عمل کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے اس طرح کی خدمات فراہم کرنے والے تمام تعلیمی اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ فوری طور پر نئے داخلوں کا عمل روک دیں۔ حکم نامے میں ملک میں قائم نجی جامعات کو بھی اپنے ہاں جاری تعلیم اور قانون کے اسٹڈی پروگرامز میں طلبہ کو نئے داخلے پیش کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
مذکورہ پابندی کی زد میں 64 نجی تعلیمی ادارے آئے ہیں جن میں سے بیشتر حکومت کی جانب سے نجی شعبے کو اعلیٰ تعلیم کے میدان میں کام کرنے کی اجازت ملنے کے بعدگزشتہ پندرہ سالوں کے دوران قائم ہوئے تھے ۔ جبکہ فاصلاتی تعلیم پہ پابندی سے ایتھوپیا کی 23 سرکاری جامعات کے تحت چلنے والے پروگرامز بھی متاثر ہونگے۔
علمی حلقوں کے مطابق ملک بھر میں فاصلاتی تعلیم کے پروگرامز سے منسلک طلبہ کی تعداد 75 ہزار کے لگ بھگ ہے جن کی ایک تہائی تعداد انڈر گریجویٹ پروگرامز جبکہ باقی تیکنیکی اورعملی تربیت کے مختلف پروگراموں میں تعلیم حاصل کررہی ہے۔ تاہم نئی متعارف کرائی گئی پابندی کے تحت ان پروگرامز میں پہلے سے داخل شدہ طلبہ کو تعلیم مکمل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
وازرتِ تعلیم کے ترجمان ابیرا ابابیبے کا دعویٰ ہے کہ نئے قوائد کا مقصد ملک میں تعلیمی معیار کو برقرار رکھنا ہے۔ ان کے مطابق بیشتر نجی تعلیمی ادارے معیاری تعلیم فراہم کرنے سے زیادہ منافع کمانے میں دلچسپی رکھتے تھے جس کے باعث ان کی وزارت کو یہ قدم اٹھانا پڑا۔
تاہم نجی تعلیمی حلقوں کی جانب سے نئی متعارف کردہ حکومتی پابندیوں پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔
نجی شعبے میں تعلیم فراہم کرنے والے ونڈووسن ٹمراٹ نے دارالحکومت عدیس ابابا میں گیارہ سال قبل 37 طلبہ کے داخلے سے سینٹ میری نامی کالج کی داغ بیل ڈالی تھی۔ آج ان کے کالج کے مین کیمپس میں صرف انڈر گریجویٹ طلبہ کی تعداد سات ہزارسے زائد ہے جبکہ ملک بھر میں موجود مزید دس ہزار کے لگ بھگ طلبہ ان کے کالج کے زیرِ انتظام چلنے والے فاصلاتی تعلیم کے پروگرامز کے ذریعے علم کی پیاس بجھا رہے ہیں۔ ٹمراٹ کا کہنا ہے کہ نئی حکومتی پابندی سینٹ میری کالج جیسے اداروں کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔
حکومتی قدم پہ ٹمراٹ خاصے برانگیختہ ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ " ہمارے طلبہ کی دو تہائی تعداد فاصلاتی تعلیم کے شعبے سے رجسٹرڈ ہے۔ اور اگر ہم یہ شعبہ بند کردیتے ہیں تو گویا ہم اپنی گزشتہ گیارہ برس میں حاصل کی گئی کامیابیوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔ ہمارے ملک بھر میں فاصلاتی تعلیم کے 140 مراکز کام کررہے ہیں جن میں سے ہر ایک میں سینکڑوں افراد لکھنے پڑھنے کا کام کرتےہیں۔ یہ پروگرام بند کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم ان سب لوگوں اور ان سب مراکز سے لاتعلق ہوجائیں"۔
ٹمراٹ کہتے ہیں کہ فاصلاتی تعلیم کا شعبہ بند کرنے کے ساتھ ساتھ قانون اور تعلیم کے شعبہ جات میں جاری تدریسی عمل کی بندش کے باعث انکے تعلیمی ادارے سے وابستہ 1200 اساتذہ میں سے تقریباً 800 کو اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونے پڑینگے۔
تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایتھوپیا میں نجی شعبے کے تحت چلنے والی ایسی جامعات اور ادارے موجود ہیں جو کسی بھی شخص کو رقم کے عوض تعلیمی ڈگری جاری کردیتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ٹمراٹ کا دعویٰ ہے کہ ان کے سینٹ میری کالج میں تعلیم پانے والے طلبہ کئی شعبہ جات میں قومی سطح پہ معیار کی علامت گردانے جاتے ہیں۔
ٹمراٹ سمجھتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے لگائی جانے والی تازہ پابندیاں پندرہ سال پہلے نجی شعبے کو اعلیٰ تعلیم کے میدان میں کام کی اجازت ملنے کے باعث معاشرے پہ پڑنے والے تمام اچھے اثرات کو زائل کردینگی۔ اس سے قبل ایتھوپیا میں مارکسٹ ڈکٹیٹر منگیسٹو ہیلی ماریم کے دور میں نجی شعبے کی جامعات اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے کام کرنے پہ پابندی عائدتھی۔
ان کا کہنا ہے کہ "یہ حکومت خود اپنے کیے کرائے پہ پانی پھیر رہی ہے۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ خود انکی موجودگی کا سبب عوام کی سرکاری و نجی انتظام کے تحت فراہم کیے جانے والے اعلیٰ تعلیم کےمواقع تک رسائی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ آخر حکومت کو بیٹھے بٹھائے یہ کیا سوجھ گئی کہ اس نے ماضی کے خود اپنے ہی ا قدامات کو کالعدم قرار دے ڈالا۔ حکومت نے پہلے جس عمل کی اجازت دی تھی اور جو بخوبی پھل پھول رہا تھا، اب ہمیں یہ بتا یا جارہا ہے کہ وہ اب مزید قابلِ عمل نہیں رہا"۔
دوسری جانب وزارتِ تعلیم کے ترجمان ابیرا ابابیبے کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے جاری کردہ احکامات پہ سختی سے عمل درآمد کرائے گی۔ تاہم انہوں نے عندیہ دیا کہ جعلی ڈگریاں جاری کرنے والے اداروں کی مکمل بندش کے بعد قوائد میں نرمی لائی جاسکتی ہے۔
ابیرا کے الفاظ میں "یہ سب کچھ ایک مختصر مدت کے لیے ہوسکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پابندی زیادہ عرصہ نہیں رہے گی ۔ لیکن ملک میں فاصلاتی تعلیم کا سلسلہ اس وقت تک ضرور رکا رہے گا جب تک کہ تعلیم کی فراہمی کا یہ عمل دوبارہ معیار کی پٹڑی پر نہیں آجاتا"۔