یورپی یونین بدھ کے روز ان نئے قواعد پر متفق ہوگئی جنکا مقصد تارکین وطن کی میزبانی اور دیگراخراجات کی زیادہ مساوی طریقے سے تقسیم، اور ترک وطن کر کے آنے والے لوگوں کی تعداد کو محدود کرنا ہے۔
یورپی پارلمنٹ اور یورپی یونین کے رکن ملکوں کی حکومتوں کے نمائندے، ان قوانین پر رات بھر کی بات چیت کے بعد ایک معاہدے پر پہنچ گئےہیں۔ جسے اجتماعی طور پر ’’مائیگریشن اینڈ اسائیلم ‘‘کے نئے معاہدہ کا نام دیا گیا ہے، جو اگلے سال سے نافذالعمل ہو گا۔
یہ قوانین ، غیر قانونی تارکین وطن کی یورپی یونین کے ملکوں میں پہنچنے پر اسکریننگ ، پناہ کی درخواستوں سےنمٹنے کے طریقہ کار، اور اس بات کا تعین کرنے کے عمل کا احاطہ کرتے ہیں کہ یورپی یونین کا کون سا ملک پناہ کی درخواستوں سے نمٹے گا اور کسی بحران کی صورت میں کونسا طریقہ کار اختیار کرنے کاذمہ دار ہو گا۔
یورپی یونین میں آنے والے تارکین وطن کی تعداد دو ہزار پندرہ میں عروج پر تھی اور دس لاکھ سے زیادہ تارکین وطن نے ان ملکوں کا رخ کیا تھا۔ اب یہ تعداد اس وقت کے مقابلے میں بہت کم ہے.
لیکن دو ہزار بیس کی کم سطح سے اس سال نومبر تک یہ تعداد بڑھ کر دو لاکھ پچپن ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ جن میں سے آدھے سے زیادہ بحیرہ روم عبور کرکے افریقہ سے اٹلی یا مالٹا گئے ہیں۔
تارکین وطن کی میزبانی کی ذمہ داری بانٹنے کی پچھلی کوششیں اس لئے ناکام ہوئیں کیونکہ خاص طور پر مشرقی یورپی یونین کے ملک یونان، اٹلی اور دیگر ممالک میں پہنچنے والے تارکین وطن کو لینے کے لئے تیار نہ تھے۔
نئے نظام کے تحت ان ممالک کے پاس جو سرحد پر واقع نہیں ہیں۔ یہ انتخاب کرنے کا اختیار ہو گا کہ وہ تارکین وطن کو قبول کریں یا یوروپی یونین کے فنڈ میں عطیہ دیں۔
اسکریننگ کا جو نظام قائم کیا جارہا ہے، وہ ان لوگوں کے درمیان فرق کرنے کی کوشش کرے گا، جنہیں بین الاقوامی تحفظ کی ضرورت ہے اور جنہیں نہیں ہے۔
کچھ تارکین وطن کی پناہ کی درخواستوں کے منظور ہونے کے امکانات کم ہونگے جیسے کہ بھارت، تیونس یا ترکی سے آنے والے تارکین وطن ، یا وہ لوگ جنہیں سیکیورٹی کے لئے خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، انہیں یور پی یونین میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ اور سرحد پر نظر بند کیا جا سکتا ہے۔
پناہ گزینوں کے حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ اس طرح تو یورپی یونین کی سرحدوں پر وہ کیمپ بنائے جائیں گے جو حراستی کیمپوں جیسے ہونگے۔
اس رپورٹ کے لئے مواد رائیٹرز سے لیا گیا ہے۔
فورم