یورپ میں قرضوں کے بحران کے اثرات نظر آنا شروع ہوگئے ہیں اور ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
برطانیہ میں ٹیچروں اور سرکاری ملازمین کی یونینوں نے جمعرات کے روز ہڑتال کی اپیل کی تھی جِس میں ہزاروں اراکین نے ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کرنے کے منصوبوں کے خلاف مارچ میں حصہ لیا۔
ویسٹ منسٹر ایبی کے باہر جہاں صرف دو ماہ قبل شاہی خاندان کی شادی کا جشن پورے ملک نے مل کر منایا تھا، سڑکیں مظاہرین سے بھری ہوئی تھیں۔ ایک نے کہا: ’یہ ناانصافی ہے۔ ہم 68سال کی عمر تک اِس گھُٹے ماحول میں کام نہیں کرسکتے۔ جو رقم میں اِس وقت ادا کر رہی ہوں اب مجھے اِس سے دوگنہ زیادہ دینے ہوں گے اور مجھے تنخواہ بھی کم ملے گی۔ آخر ہم اِس کی قیمت کیوں ادا کر رہے ہیں؟‘
ایک اور احتجاج کرنے والے نے کہا کہ بجائے اِس کے، ہم حکومت کے ہر کام کو قبول کرلیں اور حکومت یہ سمجھے کہ آگے بھی کچھ کر سکتی ہے۔ کم از کم اِس احتجاج کے بعد وہ یہ سمجھتی ہے کہ لوگوں کے جذبات کیا ہیں۔ اور وہ اِس کے اظہار کے لیے اکٹھا ہو کر نکلنے کے لیے تیار ہیں۔
ہزاروں لوگوں نے اِس احتجاج میں حصہ لیا۔ اُن میں سے بہت سے لوگوں نے ملک بھر میں ہونے والے 80مظاہروں میں شرکت کی۔ کسٹم اور امیگریشن کے اسٹاف کی ہڑتال کے سبب بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں پر بڑی بڑی لائنیں لگی ہوئی تھیں۔
برطانیہ کے ایک تہائی اسکول بند تھے، جب کہ عدالتی کارروائیوں میں تاخیر ہوئی۔
برطانوی حکومت نے اِن ہڑتالوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ لوگوں کی عمر میں اضافہ ہوا ہے اِس لیے اُنھیں زیادہ عرصے تک کام کرنا ہوگا۔ تاہم، اگر برطانیہ کی صورتِ حال کا مقابلہ دوسرے یورپی ملک یونان سے کیا جائے تو وہاں صورتِ حال زیادہ خراب ہے۔
یورپ بھر میں مظاہرین ایک بات پر متفق ہیں: وہ کہتے ہیں کہ مالی بحران ہم نے پیدا نہیں کیا ، اِس لیے اِس کی قیمت بھی ہمیں ادا نہیں کرنا چاہیئے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: