چین میں ماؤ زے تنگ کی قیادت میں جب انقلاب آیا تو بجا طور پر وہ ملک دنیا کی دلچسپی کا مرکز بن گیا۔ ہر شعبے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہونے لگیں اور مختلف پہلوؤں کو تجسس کے عالم میں دیکھا جانے لگا۔ ایک بات جو مشاہدے میں آئی وہ یہ کہ بیجنگ سمیت شہروں اور قصبوں میں سائکلوں کا استعمال اتنا عام ہوگیا یا کردیا گیا کہ وہ بات چینیوں کی زندگی کی گویا ایک پہچان بن گئی۔ عہدے داروں سے لے کر عام چینی بھی جھنڈ کی شکل میں سائیکلوں پر اپنی اپنی منزلوں پر دن رات رواں دواں نظر آئے۔
بر سبیل تذکرہ، اس حوالے سے مجھے یہ بھی یاد ہے کہ 1960ء کے عشرے کے شروع میں جب میں موجودہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکےمیں مقیم تھا، اس وقت کی سرکار نے چین سے بڑی تعداد میں سائیکلیں درآمد کیں جو چین نے نہایت سستے داموں مہیا کیں۔ یعنی صرف 80 روپے میں۔ اس طرح یہ سواری اس وقت وہاں خوب مقبول ہوئی خاص کر نچلے طبقے کے لوگوں اور طالب علموں میں۔ لیکن، بعد کی کہانی الگ موضوع ہے۔
وقت تیزی سے آگے بڑھا اور آج کی اکیسویں صدی کے دور میں جب نت نئی اختراعات نے جگہ لے لی ہے، مجھے یورپ کے بعض ملکوں کے حالیہ دورے میں اس بات کا ادراک ہوا کہ سائیکلوں کی افادیت اب بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ تین اسکینڈی نوائی ملکوں کے دورے میں یہ بات مشاہدے میں آئی کہ وہاں سائیکلوں کا استعمال اب بھی بہت ہی مقبول ہے۔بڑی تعداد میں لوگ معروف شاہراہوں سے لے کر گلی کوچوں اور مضافاتی علاقوں میں بھی تیزی سے پیڈل گھماتے نظر آتے ہیں۔ اُن میں نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی شامل ہیں۔ ان سائیکل سواروں کے لیے سڑکوں پر خصوصی لین بھی بنائی گئی ہے۔ بعض خواتین نے سائیکلوں پر کار سیٹ جیسی نشستیں بھی لگا رکھی ہیں جن پر بچے خاموشی سے اپنی جگہ سنبھالے رکھتے ہیں اور وہ بھی گویا اس سائیکل کلچر کا حصہ بن چکے ہیں۔
ٹریفک سگنل پر جب بتیاں لال ہوتی ہین تو بہت سارے سائیکل سواروں کی بھیڑ سی جمع ہو جاتی ہے۔ لیکن، نظم و ضبط قابل تعریف ہی نہیں یقیناً قابلِ تقلید ہے۔ نہ کوئی سگنل توڑتا ہے اور نہ ایک دوسرے کے لیے مشکلات پیدا کرتا ہے۔ یہ کیسے لوگ ہیں؟؟ حیرت ہے؟؟
سوئیڈن ہو، ناروے یا ڈنمارک۔ جہاں جانے کا اتفاق ہوا یہ مناظر مشترکہ ہیں۔ ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں چند ایک مقامات پر ایک ہی جگہ سٹینڈ پر ہزاروں سائیکلیں دیکھنے میں آئیں۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ یہ انڈر گراؤنڈ اسٹیشن ہےاور بہت سے لوگ یہاں سائیکلوں کو مفت پارک کرکے اپنی منزلیں طے کرتے ہیں واپسی پر یہیں سے اپنی اپنی سائیکل لے کر واپس گھروں کو جاتے ہیں۔ یہ سننے میں نہیں آتا کہ ہماری سائیکل غائب ہوگئی ۔
ان ملکوں میں سائیکلون کا استعمال نہ صرف چھوٹے فاصلوں بلکہ طویل فاصلوں کے لیے بھی عام ہے۔
ایسا نہیں کہ ان ملکوں میں ٹرانسپورٹ کی عوامی سہولتیں حاصل نہیں۔ تمام بڑے شہروں میں انڈرگراؤنڈ ریل کے علاوہ ٹرام اور بسوں کے تیز رفتار اور عمدہ انتظامات موجود ہیں۔ لیکن، اس کے پس پردہ یہ شعور شامل ہے کہ ماحولیات کی آلودگی سے کس طرح بچا جا سکتا ہے۔ اس احساس کے پیش نظر یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ کاروں کے استعمال کو کم کیا جائے تاکہ گیس کے اخراج سے جتنا بھی ہوسکے بچا جاسکے۔ دوسری جانب چھوٹے بڑے باغات ، درخت اور پودوں اور ہریالی کی بہار، صاف ستھرے آبشار اور نہریں اور اُن کا انتظام یہ سبھی کچھ مثالی ہے۔ یہ تمام مناظر اسٹاک ہام، اوسلو اور کوپن ہیگن میں ہر جگہ دیکھنے میں آئے جو شہر کے اندر اور مضافات دونوں مقامات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ہم انھیں رشک سے دیکھا کئے!!
ہماری اہلیہ نے جو ہمارے ساتھ تھیں استفسار کیا کہ یہ سب پاکستان میں کیوں نہیں؟ ہم نےکہا وہاں بھی ہے۔ لیکن، اسے چائنا کٹنگ کہتے ہیں!!
اسٹاک ہام میں ایک قابلِ دید مقام وہاں کا پرانا شہر تھا جسے پاکستان کی زبان میں آپ اندرونِ شہر کا علاقہ کہہ سکتے ہیں۔ لیکن، اس کی خوبی یہ تھی کہ اسے اپنی اصلی حالت میں نہایت صفائی ستھرائی کے ساتھ محفوظ رکھا گیا ہے۔ اسی علاقے میں سیاحوں کے لیے دکانیں اور کیفے بھی موجود ہیں جن کا خاصہ یہ ہے کہ ان میں بھی کئی صدی کے قدیم ماحول کا نقش دیکھنے میں آتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ جدید علوم و فنون سے آشنائی کے ساتھ ساتھ، سوئیڈن کے لوگ اپنے قدیم ورثے سے محبت کرنا بھی جانتے ہیں۔
اسٹاک ہام میں قیام کے دوران مجھے ایک یورنیورسٹی ٹاؤن بھی جانے کا اتفاق ہوا جو کار سے تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے کا راستہ تھا۔ ہم ایک پاکستانی خاندان کے مہمان تھے جو عشروں سے وہاں مقیم ہے اور لاہور سے آنے کے بعد وہیں رچ بس گیا ہے۔خاتونِ خانہ نے کہا میں تھوڑی ہی دیر میں اپنے چھوٹے بیٹے سے بھی آپ کو ملواؤں گی جو بس آنے ہی والا ہے۔ اسے کچھ دیر ہوگئی ہے اس لیے کہ وہ اسٹاک ہام شہر سے سائیکل پر آرہا ہے۔ کچھ ہی دیر میں وہ نمودار ہوا، دو گھنٹے کےسفر کے بعد وہ خوش و خرم تھا۔ اسے سائیکل چلانے کا شوق ہے اور اکثر اسی پر سفر کرتا ہے، گرچہ آئی ٹی کے شعبے میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔ اس نے اپنی بیوی سے بھی ملوایا جنھوں نے بیرون ملک بہت سے پاکستانیوں کی طرح کامیابی کی روشن مثال قائم کی ہے۔ اُنھوں نے سوئیڈن سے حیاتیات کے شعبے میں نہ صرف پی ایچ ڈی کی ہے بلکہ اس کے بعد سات سال کا پوسٹ ’ڈاکٹورل‘ مرحلہ بھی طے کیا ہے۔ خاتون کا تعلق پشاور سے تھا۔ لیکن وہ اسٹاک ہام میں ہی پلی بڑھیں اور یہیں تعلیم حاصل کی۔ اس کے باوجود، اُن کی اردو خاصی رواں تھی۔ نہایت متین اور سادہ۔ سادگی توویسے اِن ملکوں کا خاصا معلوم ہوتی ہے۔ لوگ چاہے مرد ہوں یا عورت اپنے اپنے حال میں خوش ہیں۔ بناوٹ اور تصنع سے دور، آسودہ حالی اور اطمینان ان کے چہروں پر تحریر ہے۔ اس کی وجہ شاید اُن کی قناعت پسندی ہوسکتی ہے جو اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور اپنی اپنی دلچسپیوں میں مگن۔ یونیورسٹی ٹاؤن ہی میں ہمیں ایک مشہور کافی شاپ میں کچھ وقت گزارنے کا اتفاق ہوا جو ایک نہر کے کنارے واقع تھی۔ بتایا گیا کہ یہ کافی شاپ بین الاقوامی انعام یافتہ ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے پُرسکون مقامات وہاں بیشتر سڑکوں کے کنارے موجود ہیں جہاں ہر عمر کے مرد اور عورتیں، نوجوان، لڑکے اور لڑکیاں سبھی خوش گپیوں میں مصروف نظر آتی ہیں۔ یہ مناظر ترقی پذیر ملک کے باسیوں کے لیے یقیناً قابل رشک ہیں۔
اسی جگہ ہماری ملاقات ایک مقامی نوجوان سے ہوئی۔ گپ شپ کے دوران اس نے بتایا کہ اس نے فارمیسی میں ڈگری حاصل کی ہے اور چند سال تک اس شعبے سے منسلک رہنے کے بعد اب پناہ گزیں بچوں کے لیے کام کرتا ہے۔ کہنے لگا کہ کچھ کام ایسے بھی ہونے چاہئیں جن سے آپ کے دل کو طمانیت حاصل ہو۔ اس کی گفتگو جاری تھی۔ بہت سے بے خانماں پناہ گزیں بچوں کے معصوم چہرے نظروں کے سامنے آگئے۔ ان کی ویران آنکھیں بہت کچھ سوال کرتی نظر آئیں۔ وہ بچہ بھی یاد آیا جو ایک ساحل پر مردہ پایا گیا تھا۔ اسے سمندر کی لہروں نے ساحل پر پھینک دیا تھا۔ اس نوجوان کی گفتگو دل گرفتہ تھی اور بہت سے جواب طلب سوالات چھوڑ گئی۔ میں اور میرے دوست سفیر طارق ضمیر پر خاموشی طاری تھی۔ بس وہ نوجوان بول رہا تھا اور ہم سن رہے تھے۔
ابھی اس کیفیت سے نکلے بھی نہیں تھے کہ کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم ایک بہت وسیع اور قدیم گرجا گھر کے سامنے کھڑے تھے۔ یہ تقریباً 400 سال یا اس سے بھی قبل تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ بات طرزِ تعمیر سے عیاں تھی۔ بتایا گیا کہ یہ وہی گرجا گھر ہے جہاں کچھ عرصہ پہلے اُس پاکستانی لڑکی کے آخری دیدار کی رسم ادا کی گئی تھی، جسے اس کے باپ اور بھائی نے اسٹاک ہام میں ہی غیرت کے نام پر قتل کردیا تھا۔ اس کا ’’جرم‘‘ یہ تھا کہ اس نے اپنی مرضی سے سوئیڈن کے ایک سفید فام نوجوان سے شادی کر لی تھی۔ اس ملک میں اس قسم کے سانحے نے ایک ہیجان برپا کردیا تھا اور آج بھی ہر سال اُس دن کی یاد میں گرجا گھر میں یادگار تقریب منعقد کی جاتی ہے جب اُس کی سہیلیوں اور دوستوں نے اُس کی میت اٹھائی تھی۔ مزید سننے اور جاننے کی سکت نہیں تھی۔ ہم ندامت کے احساس سے سرجھکائے خاموشی سے گرجا گھر کے باہر ایک منڈیر پر بیٹھ گئے۔
اور اب جبکہ واشنگٹن واپسی کے بعد میں یہ روداد قلمبند کر رہا تھا اور یہ سلسلہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ پاکستانی ٹیلی ویژن کی نشریات پر اچانک نظر پڑی۔ چونکا دینے والی خبر تھی۔ مشہور قوال امجد صابری قتل کر دیے گئے۔ اس کے بعد مزید تحرید کی کسے تاب تھی۔ اس تازہ ترین سانحے میں شاید بہت سے سوالوں کا جواب مضمر تھا!!
یہ کس نے مجھ سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کرکے
فوٹو گیلری: