رسائی کے لنکس

یورپی کمیشن کی طرف سے پناہ گزینوں کے لیے کوٹہ کی تجویز


کوٹے کا نفاذ غیر یقینی ہے کیونکہ جون میں یورپی رہنماؤں نے صرف 40 ہزار پناہ گزینوں کو بسانے کے لیے کوٹے کا منصوبہ مسترد کر دیا تھا۔

یورپی کمیشن کے سربراہ جین کلاڈ جنکر نے یورپی یونین کے ارکان سے 160,000 پناہ گزینوں کو آباد کرنے کا کہا ہے کیونکہ ان کے بقول یونان، اٹلی اور ہنگری یہ بوجھ تنہا نہیں برداشت کر سکتے۔

بدھ کو یورپی پارلیمان سے خطاب کے دوران جنکر نے کہا کہ یورپ یکجہتی سے پناہ گزینوں کے بحران سے نمٹ رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 22 رکن ممالک میں پناہ گزینوں کی منتقلی لازمی کی جانی چاہیئے تاکہ تاخیر سے بچا جا سکے۔

’’ہم پورپیوں کو کبھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ پناہ دینا اور پناہ کا بنیادی حق کیوں اتنا اہم ہے۔‘‘

وہ یورپی یونین کے وزرائے داخلہ پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اگلے ہفتے متوقع اجلاس میں آبادکاری کے منصوبے کی توثیق کر دیں۔

جنکر نے یہ بھی کہا کہ ان کے خیال میں پناہ گزینوں کو پناہ کی درخواست پر فیصلے کے انتظار کے دوران کام کی اجازت ہونی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ یورپی یونین کے تمام ارکان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ مستقبل میں ایسے بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ایک ہنگامی فنڈ کے قیام کی حمایت کریں گے۔

کمیشن کے منصوبے میں یورپ کے ہر ملک کے لیے اگلے دو برس کے دوران مشرق وسطیٰ سے آنے والے پناہ گزینوں کو بسانے کا ایک کوٹہ مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

اس منصوبے کے تحت جرمنی، فرانس اور اسپین سب سے زیادہ افراد کو پناہ دیں گے جس کے بعد پولینڈ، ہالینڈ، رومانیہ، بیلجیم اور سویڈن کے نام ہیں۔

جنگ عظم دوم کے بعد سے اب تک پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد کی یورپ میں آمد جاری ہے، مگر کوٹے کی تجویز متنازع ہے اور ہنگری اور کچھ دیگر یورپی ممالک نے اس کی سخت مخالفت کی ہے۔

کوٹے کا نفاذ غیر یقینی ہے کیونکہ جون میں یورپی رہنماؤں نے صرف 40 ہزار پناہ گزینوں کو بسانے کے لیے کوٹے کا منصوبہ مسترد کر دیا تھا۔

پناہ گزینوں کی تقسیم کا نیا نظام پناہ دینے والے ملک کی اقتصادی پیداوار، آبادی، بے روزگاری کی شرح اور پہلے سے قبول کیے گئے پناہ گزینوں کی تعداد پر مبنی ہو گا۔

جرمنی کی چانسلر آنگیلا مرخیل نے جنکر کے منصوبے کو ’’پہلا اہم قدم‘‘ قرار دیا ہے۔ جرمنی میں آنے والے پناہ گزینوں کا خوراک، پانی اور بچوں کے لیے کھلونوں سے استقبال کیا گیا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے گزشتہ دو روز کے دوران سات یورپی اقوام کے سربراہوں سے ٹیلی فون پر بات کی اور اس بات پر زور دیا کہ پناہ گزینوں کی اکثریت اپنے ممالک میں جاری تشدد سے بھاگ کر آئی ہے اور انہیں پناہ کا حق حاصل ہے۔

جرمنی نے کہا ہے کہ وہ اس سال آٹھ لاکھ پناہ گزینوں کو قبول کر سکتا ہے۔ وائس چانسلر سگمر گیبرئیل نے کہا کہ ان کا ملک آئندہ کئی سال تک پانچ لاکھ پناہ گزینوں کو پناہ دے سکتا ہے۔

شام اور جنگ میں گھرے دیگر ممالک سے بھاگنے والے پناہ گزین ہنگری سے جرمنی اور دیگر یورپی ممالک جانا چاہتے ہیں، مگر ان میں سے ہزاروں یونان اور مقدونیہ میں پھنسے ہیں اور انہیں بالکل اندازہ نہیں کہ وہ کب آگے جا سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG