رسائی کے لنکس

تعطل کے بعد مشرقی حلب سے انخلا دوبارہ شروع


شام کے شہر حلب میں باغیوں کے زیر تسلط مشرقی حصے سے شہریوں کا انخلا چند گھنٹے تعطل کے بعد اتوار کو دیر گئے دوبارہ شروع ہو گیا۔

یہاں محصور ہزاروں شہریوں کے انخلا کے لیے ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے بعد اتوار کی صبح یہاں سے لوگوں کو نکالا جانا تھا۔ لیکن لوگوں کو لے جانے والے گاڑیوں پر حملے اور انھیں نذر آتش کرنے کی وجہ سے یہ عمل روک دیا گیا تھا۔

تاہم شام کے لیے اقوام متحدہ کے ایک مشیر جان ایجلینڈ نے ٹوئٹر پر بتایا کہ کفریا اور فوعہ کے علاقوں سے "محدود پیمانے پر انخلا" دوبارہ شروع ہو گیا ہے جب کہ اب بھی ہزاروں افراد انخلا کے منتظر ہیں۔

نصف شب کے بعد بین الاقوامی ریڈکراس کمیٹی کے عہدیدار رابرٹ مارڈینی نے بھی ٹوئٹر پر بتایا کہ پانچ بسوں اور ایک ایمبولینس لوگوں کو لے کر "سیاہ و سرد" مشرقی حلب سے نکل گئی ہیں۔

انھوں نے توقع ظاہر کی کہ یہ سلسلہ مناسب انداز سے جاری رہے گا۔

قبل ازیں جمعہ تک نو ہزار شہریوں کو نکالا جا چکا تھا لیکن یہ مرحلہ بعد ازاں تعطل کا شکار ہو گیا۔

پیر کو ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس قرارداد پر رائے شماری ہونے جا رہی ہے جس میں لوگوں کے انخلا کی نگرانی کرنے کے لیے مبصرین حلب بھیجنے کا کہا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے مشیر جان ایجلینڈ نے اتوار کو انخلا کے لیے جانے والی بسوں پر حملے کا الزام القاعدہ سے ہم آہنگ باغی جنگجووں پر عائد کرتے ہوئے انھیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

انھوں نے متنبہ کیا کہ بسوں کو نذر آتش کیے جانے سے تمام امدادی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔

یہ بسیں شیعہ اکثریتی آبادی والے علاقوں فوعہ اور کفریا سے لوگوں کو لینے جا رہی تھیں۔

صدر بشارالاسد کی حکومت کی حامی فورسز یہ مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ فوعہ اور کفریا سے لوگوں کو جانے دیا جائے اور ان کے بدلے مشرقی حلب سے شہریوں اور باغیوں کو انخلا کی اجازت دی جائے گی۔

XS
SM
MD
LG