- NAACP کا کہنا کہ صدر بائیڈن اسرائیل کے لئے ہتھیاروں کی فراہمی فورا بند کریں، اور غزہ میں جنگ بندی کے کئے دباؤ ڈالیں
- تنظیم نے کہا کہ سات اکتوبر کے حملے کے بعد اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے
- گروپ نے حماس پر بھی زور دیا ہے کہ وہ یرغمالوں کو رہا کرے اور دہشت گردی کی تمام کارروائیاں بند کرے۔
- ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کے لئے انتخابی سال میں چیلنجوں کے گہرے ہونے کا امکان ہے ۔
- بائیڈن بیرون ملک ایک اہم اتحادی کی حمایت کے لیے اور اندرون ملک اپنے حامیوں کے درمیان بےچینی کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکی تنظیم نیشنل ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمینٹ آف کلرڈ پیپل (NAACP) نے جمعرات کے روز صدر بائیڈن پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور سے اسرائیل کے لئے تمام ہتھیاروں کی فراہمی روک دیں اور امریکی اتحادی پر دباؤ ڈالیں کہ وہ غزہ میں اپنی جنگ ختم کردے۔
رائٹرز کا کہنا ہے کہ یہ یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ اسرائیل کے لئے انکی حمایت نومبر کے انتخاب میں سیاہ فام امریکی ووٹروں میں انکی مقبولیت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
شہری حقوق کی یہ بااثر تنظیم اس قسم کا موقف شاذو نادر ہی اختیار کرتی ہے۔ جیسا کہ اس بار ہے۔ ایک ایسے علاقے کے سلسلے میں جہاں کوئی قابل ذکر سیاہ فام آبادی بھی نہیں ہے اس نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے کوئی موقف اختیار کیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ایسے وقت میں ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کے لئے انتخابی سال میں چیلنجوں کے گہرے ہونے کا امکان ہے جب وہ بیرون ملک ایک اہم اتحادی کی حمایت کے لیے بھی کوشاں ہیں اور اندرون ملک اپنے حامیوں کے درمیان بےچینی کو ختم کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔
شہری حقوق کی ایک سو پندرہ سال پرانی تنظیم کہتی ہے کہ حماس کے جنگجوؤں کے کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد جس میں اسرائیل کے بقول کوئی بارہ سو لوگ مارے گئے تھےاور اور ڈھائی سو سے زیادہ کو یرغمال بنا لیا گیا، اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
این اے اے سی پی نے حماس پر بھی زور دیا کہ وہ یرغمالوں کو رہا کرے اور دہشت گردی کی تمام کارروائیاں بند کرے۔ تنظیم نے اسرائیل پر بھی زور دیا کہ وہ ایسی جارحانہ حکمت عملی اپنائے جو بین الاقوامی اور انسانی قوانین کی مطابقت میں ہو۔
رائٹرز کے مطابق اسرائیل کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں ان الزامات کا سامنا ہے کہ اس نے نسل کشی کے کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے، جسکی وہ تردید کرتا ہے۔
این اے اے سی پی سیاہ فام امریکیوں کے لئے نسلی انصاف اور حقوق کی وکالت کر نے والی تنظیم ہے۔ اور اسکا کہنا ہے کہ امریکہ کو غزہ میں مستقل جنگ بندی کرانے کے لئے ، اسرائیل پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہئیے۔
غزہ میں حماس حکومت کے صحت سے متعلق حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جنگی مہم میں چھتیس ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں۔ بڑے پیمانے پر بھوک پھیلی ہے اور زیادہ تر آبادی بے گھر ہو گئی ہے۔
رائٹرز کے مطابق این اے اے سی پی کا یہ موقف تازہ ترین انتباہی علامت ہے کہ بائیڈن کو پانچ نومبر کے صدارتی انتخاب میں اسرائیل کے لئے اپنی مضبوط حمایت کی سیاہ فام ووٹروں کے درمیان قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔
سیاہ فام ووٹرز طویل عرصے سے وفادار ڈیمو کریٹک ووٹر رہے ہیں، انہوں نے دو ہزار بیس میں بائیڈن کی جیت میں بھی اہم کردار ادا کیا جب انہوں نے ریپبلیکن ڈانلڈ ٹرمپ کو شکست دی تھی، جن سے انکا اس دفعہ پھر ممکنہ مقابلہ ہے۔
لیکن اس بار رائے عامہ کے جائزوں میں بائیڈن کے لئے سیاہ فام ووٹروں میں جوش و خروش کی کمی دکھائی گئی ہے، خاص طور سے نوجوانوں میں۔
اس سال کے اوائل میں ایک ہزار سے زیادہ سیاہ فام پادریوں کے ایک گروپ نے بائیڈن سے جنگ بندی کروانے کی اپیل کی تھی۔
رائیٹرز کے ساتھ ایک انٹرویو میں این اے اے سی پی کے صدر ڈیرک جانسن نے کہا کہ امریکہ کو اخلاقی قیادت کے مظاہرے کی اور شہریوں کی ہلاکتوں کے سبب اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل روکنے کی ضرورت ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ شہریوں کی ہلاکتوں سے بچنے کے لئے اقدامات کرتا ہے اور وہ حماس پر بقول اسکے، اپنے جنگجوؤں اور کمان مراکز کو شہریوں کے درمیان چھپانے کا الزام عائد کرتا ہے۔
جانسن نے کہا کہ این اے اے سی پی کے اس معاملے میں بولنے کی جزوی وجہ نوجوان سیاہ فام امریکیوں کا ان ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تصاویر سے ہیبت زدہ ہونا ہے جو وہ اپنے اسمارٹ ٹیلیفونز پر دیکھتے ہیں۔
جانسن نے کہا کہ اس بارے میں یہاں بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ہمارے ٹیکس ڈالرز، شہریوں کو نقصان پہنچانے کے لئے کیوں استعمال کئے جارہے ہیں۔
صدر بائیڈن جسطرح غزہ کی جنگ اور اسکے خلاف امریکی یونیورسٹیوں میں ہونے والے احتجاجات کے معاملات سے نمٹ رہے ہیں اس کے بارے میں مئی میں رائٹرز اور آئی پی ایس او ایس کے مشترکہ جائزے کے مطابق ڈیمو کریٹس کے درمیان گہری تقسیم ہے۔ کوئی چوالیس فیصد رجسٹرڈ ڈیموکریٹک ووٹروں کا کہنا تھا کہ کہ وہ اس طریقہ کار کو درست نہیں سمجھتے جو اس بحران سے نمٹنے کے لئے بائیڈن نے اختیار کیا ہے۔
اس تصادم نے یہود دشمنی ، اسلامو فوبیا اور غیر ملکیوں سے نفرت یا زینو فوبیا جیسے رجحانات کو اور ہوا دی جسکے بارے میں جانسن نے کہا کہ لڑائی جاری رہنے کی صورت میں ان میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
حقوق انسانی کی وکالت کرنے والوں نے دنیا بھر میں اسلامو فوبیا، فلسطینی مخالف تعصب میں اور یہود مخالفت میں سات اکتوبر کے بعد سے اضافے کی اطلاع دی ہے۔ جانسن نے کہا کہ این اے اے سی پی یہ باور نہیں کرتی کہ اسرائیل کے لئے بائیڈن کی حمایت اس رجحان کی ذمہ دار ہے لیکن وہ چاہتی ہے کہ امریکہ ہتھیاروں کی ترسیل روک کر زیادہ قوت کے ساتھ امن کے مقصد کو آگے بڑھائے۔
اس رپورٹ کے لئے مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔
فورم