اس ماہ پارلیمانی انتخابات میں عرب اسرائیلی پارٹیوں کی بے مثال کامیابی کو اسرائیل کے عرب شہریوں کی سیاسی عمل میں شمولیت کے ممکنہ نئے دور کے آغاز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
چار عرب پارٹیوں کا اتحاد ’جوائنٹ لسٹ‘ 17 مارچ کو ہونے والے انتخابات میں 14 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ ان انتخابات میں وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو کی لیکود پارٹی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرکے حکومت سازی کی اہل قرار پائی۔
اگرچہ جوائنٹ لسٹ کی نیتن یاہو کی مخلوط حکومت میں شمولیت کی توقع نہیں، انتخابی نتائج کے مطابق یہ پارٹی اسرائیلی پارلیمان کی تیسری بڑی پارٹی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس بار اسرائیل کے عرب شہریوں نے زیادہ تعداد میں ووٹ دیا۔ پچھلے انتخابات کی نسبت اس بار عرب شہروں اور دیہاتوں میں ووٹروں کی شمولیت میں 10 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا جو 1999 سے اب تک ایک ریکارڈ ہے۔
جوائنٹ لسٹ کے رہنما أيمن عودہ نے اسرائیل کی فلسطینی اقلیت کے تحفظ کے لیے اسرائیلی یہودیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے پر زور دیا ہے۔ بہت سے اسرائیلی فلسطینیوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیلی حکومت ان کے ساتھ اچھوتوں کا سا سلوک کرتی ہے۔
کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیلی سسٹم کے اندر رہتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کا ماڈل ناصرف اسرائیل کے اندر18 لاکھ عرب آبادی بلکہ اسرئیلی فوج کے زیرِتسلط فلسطینی علاقوں کے عوام کے لیے بھی ایک نئی حکمتِ عملی ثابت ہو سکتا ہے۔
ناکام مذاکرات پر مایوسی
مغربی کنارے میں 25 لاکھ فلسطینی پچھلے 50 سالوں سے اسرائیلی فوج کے زیرِتسلط زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کی جانے والے سفارتی کوششوں کی ناکامی سے دلبرداشتہ ہیں۔ 18 لاکھ آبادی پر مشتمل غزہ میں بھی اب امید کم ہوتی جارہی ہے جہاں اسرائیل اور مصر کی ناکہ بندی سے معیشت تباہ ہو کر رہ گئی ہے۔
فلسطین کے مسئلے کا دو ریاستی حل اقوامِ متحدہ کے 1948 کے تقسیم کے منصوبے کا حصہ تھا۔ یہ مغربی ممالک کی ثالثی میں رک رک کر چلنے والے امن مذاکرات کا بھی بیان کردہ مقصد ہے۔ پچھلے برس امریکی ثالثی میں ہونے والے امن مذاکرات ایک بار پھر ناکامی کا شکار ہو گئے تھے جب فلسطینی مذاکرات کاروں نے اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور وزیرِاعظم نیتن یاہو نے مغربی کنارے پر یہودی آبادیوں میں اضافے کو روکنے سے انکار کر دیا تھا۔
امن کے عمل کو ایک اور دھچکا اس وقت لگا جب نیتن یاہو نے اپنی حالیہ انتخابی مہم میں یہ وعدہ کیا کہ وہ کبھی آزاد فلسطینی ریاست نہیں بننے دیں گے۔ اگرچہ بعد میں وہ اس دعوے سے منحرف ہو گئے، مگر وائٹ ہاؤس کے حکام کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کی قیادت میں دو ریاستی حل کی امید بہت کم ہے۔
ایک ریاستی حل
حالیہ واقعات کی وجہ سے کچھ تجزیہ کاروں نے دو ریاستی حل کی صحت پر سوال اٹھایا ہے۔ انہوں نے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں پر مشتمل ایک مشترکہ جمہوری ریاست کے قیام کے لیے آواز اٹھائی ہے۔
ایک ریاستی حل کے سب سے نمایاں حامی جلا وطن فلسطینی رہنما علی ابو نعمة ہیں۔ پچھلے ہفتے ابو نعمة نے اپنے بلاگ میں لکھا تھا کہ انہیں نیتن یاہو کی کامیابی سے اطمینان ملا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’لوگوں کے لیے یہ قیاس بہت مشکل ہے کہ جس طرح کے مذاکرات امریکہ پچھلے 20 سالوں سے کروا رہا ہے انہیں دوبارہ شروع کرنے سے کوئی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔ میرے خیال میں واضح پیغام یہ ہے کہ اس فارمولے میں اب جان باقی نہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ عرب جوائنٹ لسٹ کی کامیابی سے ’’یہ تصور کرنا آسان ہو گیا ہے کہ حقِ رائے دہی ناصرف اسرائیل کے 17 یا 18 لاکھ فلسطینی شہریوں بلکہ تمام فلسطینیوں کو دیا جائے گا۔‘‘
تاہم ایک ریاستی حل کی کامیابی کے بارے میں کافی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ اب زیادہ فلسطینی اسرائیل کے اندر رہتے ہوئے جمہوری حقوق حاصل کرنے کے خیال پر آمادہ ہیں مگر اس پر زیادہ سوچ بچار نہیں کی گئی کہ کیا اسرائیلی اور فلسطینی ایک ریاست میں اکٹھے رہ سکتے ہیں۔
لہٰذا مستقبل نزدیک میں اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ حالات جوں کے توں رہیں گے۔