آنکھ کے بالائی حصے پر بالوں کی ایک پتلی سی جھالر ہوتی ہے جسے ابرو یا بھنویں کہا جاتا ہے۔ بظاہر یہ بالوں کی پتلی سی جھالر اس کے سوا کسی اور کام نہیں آتی کہ اس کو تراش خراش کر مزید باریک بنا دیا جائے جس کے لیے مارکیٹ میں بہت سے پراڈکٹس دستیاب ہیں اور بیوٹی پارلر یہ خدمات سرانجام دینے کے لیے ہمہ وقت حاضر ہیں۔
بھنوؤں کو سنوارنے کا سلسلہ اب مردوں تک دراز ہو چکا ہے اور ہیر سٹائیلش آپ کے سر کے بال تراشتے ہوئے بھنوؤں پر بھی اپنی مہارتو ں کا جادو جگاتے ہیں۔
بھنووں کے استعمال میں ہماری شاعری کسی سے پیچھے نہیں ہے ۔ آپ کو درجنوں بلکہ سینکڑوں ایسے اشعار میں مل جائیں گے جنہیں پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے بھنوؤں کا دل سے براہ راست کنکشن ہے۔ اور اب بھنوؤں نے سائنس کو بھی زیر کر لیا ہے۔
حال ہی میں شائع ہونے والی ایک سائنسی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو دوسرے جانداروں پر غالب آنے اور ان سے اپنی راہیں جدا کرنے میں بھنوؤں کا کردار کلیدی ہے۔ سائنس دان اس کا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ انسان میں اپنی بھنوؤں کو حرکت دینے کی صلاحیت ہے جب کہ دوسرے جاندار ایسا نہیں کرسکتے۔
یہ ایک قدرتی سوال ہے کہ صرف بھنووں کو حرکت دینے کی صلاحیت سے انسان کیسے اشرف لمخلوقات بن گیا؟ سائنس دان کہتے ہیں کہ بھنوؤں کی حرکت وہ پہلی زبان ہے جو انسان نے بولنے سے پہلے سیکھی۔ جب تک انسان نے اپنے اظہار کے لیے اشارے ایجاد نہیں کیے تھے اور ہو ہا یا اس سے ملتی جلتی آوازیں نکالنی شروع نہیں کیں تھیں، بھنوؤں کی جنبش اس کی پہلی زبان بنی اور وہ اپنا پیغام بھنوؤں کو حرکت دے کر اپنے ہم جنسوں تک پہنچاتا تھا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ زبان وجود میں آنے سے بہت پہلے انسان نے چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں رہنا شروع کر دیا تھا۔ یہ دور لگ بھگ دو لاکھ سے 30 ہزار سال پہلے کی مدت پر پھیلا ہو اہے۔ اس دوران انسان سے مشا بہت رکھنے والا جو جاندار کرہ ارض پر رہ رہا تھا، اس کی ایک شاخ نے آگے چل کر موجودہ زمانے کی جدید اور ترقی یافتہ انسانی نسل کی شکل اختیار کی۔
سائنس دان کہتے ہیں کہ انسانوں کے لیے اپنی ابتدائی سماجی زندگی کے دوران اپنے جذبات کی دوسروں تک منتقلی میں جو چیز وسیلہ بنی وہ بھنویں تھیں۔ اس نے بھنوؤں کی مخصوص حرکت کو مختلف اشاروں کے لیے استعمال کیا اوراس گروہی زندگی میں یہ صلاحیت باہمی رابطوں اور جذبات کے اظہار کے لیے استعمال کی جانے لگی۔
نیویارک یونیورسٹی کی سائنس دان اور بھنوؤں پر تحقیق کی شریک مصنف پینی سپائکنز کا کہنا ہے کہ بھنویں اس معمے کا گم شدہ حصہ ہے کہ آج کے دور کی جدید انسانی نسل نے دوسروں دوسرے جانداروں کے مقابلے میں ایک دوسرے کے ساتھ بہتر رابطہ کاری کیسے شروع کی تھی۔
سپائکنز اوران کی ٹیم نے موجودہ انسانی نسل کے آباؤ اجداد کی بھنوؤں کا مطالعہ کر کے یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ وہ انہیں کس طرح حرکت دیتے رہے ہیں۔
ماہرین کی ٹیم نے اس تحقیق میں تھری ڈی سافٹ ویئر کے استعمال کے ذریعے اس ابتدائی انسان کے کاسہ سر پر تحقیق کی جس کے متعلق قیاس ہے کہ وہ موجودہ نسل کا جد امجد ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بعد ازاں یہ نسل دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ان میں سے ایک نے جدید انسان کا روپ دھارا جب کہ دوسری نسل نیندرتھل کہلاتی ہے جو انسان سے مشابہت رکھتی ہے۔ اسے انسان کا کزن بھی کہا جاتا ہے۔
بہرحال اس کزن کا انجام کچھ اچھا نہیں ہوا۔ یورپ کے کئی برفانی حصوں میں اس کے ہزاروں سال پرانے ڈھانچے دریافت ہو چکے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے نیندرتھل کے فنا ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہ بدلتے موسموں کے مطابق خود کو ڈھالنے میں ناکام رہی، اس کی دماغی صلاحیت اور دیگر حسیات بھی کمزور تھیں اور شاہد وہ اپنی بھنوؤں کو جنبش بھی نہیں دے سکتے ہوں گے۔