مصر میں انتظامیہ نے ٹی وی چینل "الجزیرہ" کے ایک صحافی کو 10 ماہ قید میں رکھنے کے بعد رہا کردیا ہے۔
عبداللہ الشامی کی کسی الزامات کے بغیر قید پر فوج کی حمایت یافتہ مصری حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
الجزیرہ کی عربی زبان میں نشریات پیش کرنے والے چینل کے اس رپورٹر کو انتہائی سکیورٹی والی بدنام زمانہ ’’اسکارپین جیل" سے رہائی کے بعد دارالحکومت قاہرہ کے ایک تھانے منتقل کیا گیا۔
مصر کے پراسیکیوٹر جنرل نے پیر کو عبداللہ کی صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے انھیں رہا کرنے کا اعلان کیا تھا۔
غیر ملکی خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق قاہرہ کے جنوبی مضافاتی علاقے کی ایک جیل سے نکل کر 26 سالہ عبداللہ اپنی ماں، بیوی اور بھائیوں سے ملے اور
وہاں موجود اس صحافی کو جاننے والے افراد کا کہنا تھا کہ چاق و چوبند رہنے والا عبدللہ رہائی کے بعد کمزور دکھائی دے رہا تھا۔
الجزیرہ کے ایک وکیل شعبان سعید کا کہنا تھا ’’پبلک پراسیکیوٹر نے یہ اپیل منظور کی کہ گرفتاری کے وقت عبداللہ بحیثیت رپورٹر اپنے فرائض انجام دے رہا تھا۔‘‘
عبداللہ کو گزشتہ سال 14 اگست کو اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ قاہرہ میں پولیس کی طرف سے مظاہری کے دھرنے کو منتشر کرنے کی کارروائی کی رپورٹنگ کررہا تھا۔ جنوری میں انہوں نے جیل میں اپنی گرفتاری کے خلاف بھوک ہڑتال بھی کی۔
ان کی گرفتاری ایک ایسے وقت ہوئی تھی جب معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں ہو رہی تھیں۔
مصری حکام نے الجزیرہ پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ اخوان المسلمین کی حمایت کرتا ہے۔ مصری حکومت نے اس تنظیم و سیاسی جماعت اخوان المسلمین کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
الجزیرہ ٹی وی کی طرف سے عبداللہ کی رہائی کو خوشخبری کی بجائے ریلیف قرار دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ان کا رپورٹر ایک ہولناک اذیت سے گزرا ہے۔ ادارہ وائٹ ہاؤس اور یورپی یونین سمیت ان تمام کا شکریہ ادا کرتا ہے جنھوں نے عبداللہ کی حمایت کی۔
الجزیرہ چینل کی انتظامیہ نے مصری حکومت سے ان کی انگریزی سروس کے تین صحافیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔ پیٹر گرسٹ، بشر محمد اور محمد فہمی جھوٹی خبریں پھیلانے کے الزامات میں اب بھی قید میں ہیں۔
عبداللہ الشامی کی کسی الزامات کے بغیر قید پر فوج کی حمایت یافتہ مصری حکومت کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
الجزیرہ کی عربی زبان میں نشریات پیش کرنے والے چینل کے اس رپورٹر کو انتہائی سکیورٹی والی بدنام زمانہ ’’اسکارپین جیل" سے رہائی کے بعد دارالحکومت قاہرہ کے ایک تھانے منتقل کیا گیا۔
مصر کے پراسیکیوٹر جنرل نے پیر کو عبداللہ کی صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے انھیں رہا کرنے کا اعلان کیا تھا۔
غیر ملکی خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق قاہرہ کے جنوبی مضافاتی علاقے کی ایک جیل سے نکل کر 26 سالہ عبداللہ اپنی ماں، بیوی اور بھائیوں سے ملے اور
وہاں موجود اس صحافی کو جاننے والے افراد کا کہنا تھا کہ چاق و چوبند رہنے والا عبدللہ رہائی کے بعد کمزور دکھائی دے رہا تھا۔
الجزیرہ کے ایک وکیل شعبان سعید کا کہنا تھا ’’پبلک پراسیکیوٹر نے یہ اپیل منظور کی کہ گرفتاری کے وقت عبداللہ بحیثیت رپورٹر اپنے فرائض انجام دے رہا تھا۔‘‘
عبداللہ کو گزشتہ سال 14 اگست کو اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ قاہرہ میں پولیس کی طرف سے مظاہری کے دھرنے کو منتشر کرنے کی کارروائی کی رپورٹنگ کررہا تھا۔ جنوری میں انہوں نے جیل میں اپنی گرفتاری کے خلاف بھوک ہڑتال بھی کی۔
ان کی گرفتاری ایک ایسے وقت ہوئی تھی جب معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں ہو رہی تھیں۔
مصری حکام نے الجزیرہ پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ اخوان المسلمین کی حمایت کرتا ہے۔ مصری حکومت نے اس تنظیم و سیاسی جماعت اخوان المسلمین کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
الجزیرہ ٹی وی کی طرف سے عبداللہ کی رہائی کو خوشخبری کی بجائے ریلیف قرار دیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ان کا رپورٹر ایک ہولناک اذیت سے گزرا ہے۔ ادارہ وائٹ ہاؤس اور یورپی یونین سمیت ان تمام کا شکریہ ادا کرتا ہے جنھوں نے عبداللہ کی حمایت کی۔
الجزیرہ چینل کی انتظامیہ نے مصری حکومت سے ان کی انگریزی سروس کے تین صحافیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔ پیٹر گرسٹ، بشر محمد اور محمد فہمی جھوٹی خبریں پھیلانے کے الزامات میں اب بھی قید میں ہیں۔