پاکستان کے ایک موقر انگریزی اخبار سے منسلک ویب سائیٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ سماجی رابطوں کے معروف پلیٹ فارم فیس بک نے ڈان داٹ کام کی اس خبر کی پوسٹ تک رسائی کو بلاک کر دیا جس میں پاکستان کے ایک سینیئر سیاستدان جاوید ہاشمی نے مبینہ طور پر ملک کی عدلیہ پر سخت تنقید کی تھی۔
فیس بک کی طرف سے خود کار طریقے سے جاری ہونے والے ایک پیغام کے مطابق "آ پ کے ملک میں قانونی پابندیوں کی وجہ سے ہم نے فیس بک پر آ پ کی پوسٹ تک رسائی کو محدود کر دیا ہے۔"
تاہم ملک کے اندر ویب سائٹ کی ذریعے اس خبرتک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔
ڈان ڈاٹ کام میں جمعے کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق فیس بک نے اس مواد تک رسائی ایک مقامی قانونی کے بنیاد پر روک دی ہے ۔
رپورٹ کے مطابق یہ ایک ایسا اقدام ہے جو عموماً ایک غیر شفاف معاہدے کے بیناد پر ریاست کے اداروں کی درخواست کے تحت کیا جاتا ہے اور ماضی میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے اس پر تنقید کی جاتی رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ کہ فیس بک نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ ڈان ڈاٹ کام کی پوسٹ نے کس قانونی کی خلاف ورزی کی اور ناہی اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ اس پوسٹ تک رسائی کو روکنے کی درخواست کہاں سے آئی ہے۔
ڈان ڈاٹ کام نے سماجی رابطوں کا پلیٹ فارم فیس بک جس کے دنیا بھر میں ایک ارب 90 کروڑ صارفین ہیں کی طرف سے مواد تک رسائی کو روکنے کو ایک متنازع اقدام قرار دیا ہے۔
سوشل میڈیا یا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر صارفین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ معلومات اور خبروں تک رسائی کے لیے سوشل میڈیا کا کردار نہایت اہم ہے اور فیس بک کی طرف سے کسی بھی نیوز پوسٹ تک رسائی کو محدود کرنے کے اقدام سے آزادی اظہار اور معلومات تک رسائی کا بنیادہی حق متاثر ہو گا۔
فیس بک کی طرف سے گزشتہ سال جاری ہونے والی ٹرانسپرینسی رپورٹ کے مطابق حکومت پاکستان نے جنوری سے جون 2017ء کے درمیان فیس بک کو ایک ہزار سے زائد صارفین سے متعلق معلومات کی فراہم روکنے کی درخواست کی تھی جبکہ 2016ء میں اسی عرصے کے دوران ایسی درخواستوں کی تعدادصرف 718 تھی۔
فیس بک کی ایک رپورٹ کےمطابق پاکستان میں ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے ' ایف آئی اے ' کی درخواستوں پر فیس بک پر پوسٹ ہونے والی 177 پوسٹ تک رسائی روک دی گئی جو مبینہ طور پر ان مقامی قوانین کے خلاف ورزی کا بتایا گیا جس کے تحت "ملک کی آزادی کے خلاف اور توہین مذہب سے متعلق مواد کی تشہیر غیر قانونی قرار دی جا چکی ہے۔"