پاکستانی گلوکار علی ظفر اور گلوکارہ میشا شفیع کی عدالتی جنگ میں گزشتہ دنوں ایک ڈرامائی موڑ اس وقت آیا جب بھارتی ذرائع ابلاغ نے گلوکارہ میشا شفیع کو تین سال قید کی سزا دیے جانے کی غلط خبر دے دی۔
حیران کن طور پر اس پیش قدمی کے بارے میں نہ علی ظفر کو پتا تھا اور نہ ہی میشا شفیع اس بارے میں کچھ جانتی تھیں۔
سن 2018 میں میشا شفیع نے علی ظفر پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا جس کے جواب میں علی ظفر نے میشا کے خلاف ہتکِ عزت کا کیس دائر کیا تھا جو تاحال زیرِ سماعت ہے۔
خواہشات کو خبر بنانا اب صرف پاکستان میں نہیں ہوتا
بارہ مارچ کو امریکی جریدے 'وال اسٹریٹ جرنل' نے میشا شفیع اور علی ظفر کیس کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا 'علی ظفر پر الزام لگانے کے باعث میشا کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا ہے۔'
اس خبر میں کوئی غلط بات تو تھی نہیں کیوں کہ پاکستان کی عدالت میں دونوں اسٹارز عدالتی جنگ میں آمنے سامنے ہیں۔ دونوں کے مداح بھی کیس کے جلد اختتام کے لیے پُرامید ہیں اور مخالف پارٹی کی ہار دیکھنا چاہتے ہیں۔
خبر کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے برطانوی جریدے 'ڈیلی میل' نے اپنے پڑھنے والوں کے لیے اسے اٹھایا اور 'وال اسٹریٹ جنرل' کی رپورٹ کا حوالہ دے کر شہ سرخی میں لکھا کہ 'ہتکِ عزت کے الزام میں میشا شفیع کو تین سال قید کی سزا کا سامنا ہے۔'
'وال اسٹریٹ جرنل' نے جس بات کا امکان ظاہر کیا، ڈیلی میل نے اسے حقیقت سمجھ لیا۔
فیک نیوز کلچر: 'کوئی جیل گیا کسی کو سزا ہوئی'
بات یہاں ختم نہیں ہوئی۔ 'قانونی چارہ جوئی' اور 'قید کا سامنا' کو چند بھارتی ذرائع ابلاغ نے اس انداز میں پیش کیا کہ تین سال کی سزا کا سامنا' کو 'تین سال کی سزا' سمجھ بیٹھے اور پھر تصدیق کیے بغیر 'ٹائمز آف انڈیا'، 'زی نیوز' اور کئی دیگر بھارتی ذرائع ابلاغ نے میشا شفیع کو تین سال قید کی سزا ہونے کی خبریں چلا دیں۔
اس خبر کے سامنے آنے پر سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی۔ نہ صرف علی ظفر اور میشا شفیع کے نام ٹرینڈ کرنے لگے بلکہ علی ظفر کے مداحوں نے اسے سچ کی جیت اور میشا شفیع کے فالوررز نے فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔
معاملہ اتنا بڑھ گیا کہ میشا شفیع کے وکیل اسد جمال کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کے ذریعے وضاحت کرنا پڑی کہ میشا شفیع کو کوئی سزا نہیں سنائی گئی۔ انہوں نے میڈیا پر زور دیا کہ اس قسم کی خبروں کو بغیر تصدیق کے آگے نہ بڑھائیں۔
بعدازاں میشا شفیع نے غلط خبر پھیلانے والوں کے لیے سماجی ویب سائٹ پر ایک پیغام بھی جاری کیا۔
فیک نیوز کلچر سوشل میڈیا سے بھی پہلے کا ہے
پاکستان میں فیک نیوز کلچر آج کل کی بات نہیں ہے۔ کسی نام ور اداکار کی موت کی خبر ہو، کسی شوبز اداکار کی شادی یا طلاق کی خبر یا کسی پر جھوٹا الزام لگانے کی بات، پاکستانی میڈیا میں ایسی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔
پہلے صرف سرکاری ٹی وی ہونے کی وجہ سے اس طرح کی خبریں اخبارات تک ہی محدود رہتی تھیں۔ لیکن نجی نیوز چینلز اور سوشل میڈیا کے آنے کے بعد بغیر تحقیق خبر آگے بڑھانے کی دوڑ میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے مشہور ڈرامے 'وارث' میں چوہدری حشمت کا کردار ادا کرنے والے اداکار محبوب عالم ہوں یا پھر فلم اور ٹی وی میں لازوال اداکاری کرنے والے عابد علی، دونوں کو ان کے جیتے جی ہی میڈیا نے مار ڈالا تھا۔
محبوب عالم کو ان کی موت کی خبر نشر ہونے کے بعد پی ٹی وی کے اسٹوڈیو میں دیکھ کر لوگ حیران ہوئے تھے جب کہ عابد علی کی چھوٹی بیٹی راحمہ علی کو سوشل میڈیا پر آ کر لوگوں سے گزارش کرنا پڑی تھی کہ ان کے والد کے بارے میں افواہیں نہ پھیلائیں۔
اور تو اور مشہور شاعر احمد فراز کے انتقال کی غیر تصدیق شدہ خبر پہلے سرکاری ٹی وی نے چلائی اور پھر دیگر چینلز نے ان کی تقلید کی۔ ان کے بیٹے سے جب ان کی موت سے متعلق استفسار کیا گیا تو وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے تھے کہ "آپ کہہ رہے ہیں تو خبر ٹھیک ہی ہوگی۔"
فیک نیوز کا شکار عمیر رانا کیا کہتے ہیں؟
ڈرامہ سیریل 'پیار کے صدقے' اور 'دل ناامید تو نہیں' میں اپنی اداکاری سے سب کو متاثر کرنے والے اداکار عمیر رانا بھی گزشتہ دنوں فیک نیوز کا شکار ہوئے تھے۔ وہ ایک اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک استاد بھی ہیں جو لاہور میں تدریسی عمل سے کئی برسوں سے وابستہ ہیں۔
ہم ٹی وی کے ڈرامے 'پیار کے صدقے' میں وہ ایک ایسے سسر کا کردار ادا کر رہے تھے جسے اپنے سوتیلے بیٹے کی بیوی سے محبت ہو جاتی ہے اور وہ ان دونوں کی زندگی میں دراڑ ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔
اس ڈرامے میں ان کے کردار کی بنیاد پر ایک خاتون نے سوشل میڈیا پر ان پر الزام لگا دیا کہ جیسے وہ ڈرامے میں ہیں، ویسے ہی اصل زندگی میں بھی ہیں۔ پھر کیا تھا، عمیر رانا کو لوگ ایک اچھے اداکار کے بجائے ایک بدکار انسان سمجھنے لگے اور ہر کوئی ان پر لعن طعن کرنے لگا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عمیر رانا نے کہا کہ اس 'تجربے' سے گزرنے کے بعد انہیں ان لوگوں سے ہمدردی ہونے لگی ہے جن پر جھوٹے الزامات لگتے ہیں اور جنہیں ہمارا معاشرہ بغیر تصدیق کیے مجرم ٹھہرا دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "اپنے خلاف سوشل میڈیا مہم سے گزرنے کے بعد مجھے صحیح معنوں میں سمجھ آیا ہے کہ فیک نیوز کا لوگوں پر کیا اثر پڑتا ہے اور بغیر ثبوت کے کسی پر الزام لگانا کتنا آسان ہو گیا ہے۔"
ان کے بقول "بدقسمتی سے ہمارے ہاں مصالحے دار خبر ہی بکتی ہے جسے لوگ بغیر تصدیق کیے محض اپنی اہمیت جتانے کے لیے واٹس ایپ گروپس میں شیئر کردیتے ہیں تاکہ خود کو بڑا سمجھ سکیں اور یہیں سے بات آگے بڑھتی ہے۔"
اداکار کا کہنا تھا کہ واٹس ایپ سے یہی خبر سوشل میڈیا اور پھر نیوز چینلز تک پہنچتی ہے اور سب سے پہلے 'بریک' کرنے والا یہ نہیں سوچتا کہ یہ خبر درست ہے بھی یا نہیں۔
عمیر رانا کا کہنا تھا کہ "دو سال قبل عابد علی کی موت کی خبر اس وقت دی گئی جب وہ زندہ تھے۔ یہ نہ صرف ایک غیر ذمہ دارانہ فعل تھا بلکہ ہم نے ایکٹرز کلکٹیو ٹرسٹ (ایکٹ) کے پلیٹ فارم سے اس کی مذمت بھی کی تھی اور تمام نیوز چینلز کو خط بھی لکھا تھا، وہ بیمار تھے لیکن زندہ تھے اور ان کی موت کی خبر دینے سے پہلے تصدیق کرنی چاہیے تھی۔"
فیک نیوز، اب صرف پاکستان تک محدود نہیں
صحافی مہوش اعجاز کہتی ہیں کہ بھارتی میڈیا کا علی ظفر اور میشا شفیع کیس میں اپنے تئیں فیصلہ دینا ایک غیر ذمہ دارانہ حرکت تھی۔ تصدیق کے بغیر کسی بھی قسم کی خبر شائع کرنا دونوں پارٹیوں کے لیے نقصان دہ ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت میں جعلی خبروں کی تردید کا نظام موجود ہے اس کے باوجود ایسا ہونا حیران کن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ "بھارت میں اس قسم کی بے بنیاد خبروں کی آزاد ذرائع سے جلد ہی تردید ہو جاتی ہے۔ لیکن پاکستان میں ایسا نظام ابھی تک نہیں آیا۔ لوگ سوشل میڈیا پر آئی ہر چیز کو بغیر تصدیق کے درست سمجھ لیتے ہیں جو کہ غلط بھی ہے اور خطرناک بھی۔"
انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ استعمال کرنے والوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ٹوئٹر کو آئے 10 سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ صارفین بھی ذمے داری کا ثبوت دیں۔
ان کے بقول "ٹوئٹر پر لاکھوں فالوورز رکھنے والے صارفین پر لازم ہے کہ وہ کوئی بھی خبر آگے بڑھانے سے پہلے اس کی تصدیق کر لیں۔ انہیں نہیں اندازہ کہ ان کے پاس اتنی ہی طاقت ہے جو پہلے ٹی وی شو کی میزبانی کرنے والوں کے پاس ہوا کرتی تھی۔ ان کا ایک غلط ری ٹوئٹ کسی کو دنیا بھر کے سامنے رسوا کر سکتا ہے یا کسی کا کریئر تباہ کرسکتا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں پہلے سیاست دان جھوٹا الزام لگا کر سیاسی فائدہ اٹھاتے تھے اب سوشل میڈیا پر کسی پر بھی الزام لگا کر لوگ ذاتی فائدہ اٹھاتے ہیں۔
مہوش اعجاز کہتی ہیں کہ "اس وقت سب سے آسان کام کسی کو بھی رسوا کرنا ہے۔ سوشل میڈیا پر اگر میں کسی پر الزام لگا دوں کہ فلاں شخص نے میرے پیسے کھائے ہیں تو لوگ بغیر تصدیق کے اس بات کو درست سمجھ لیں گے۔ نہ صرف وہ اس ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کریں گے بلکہ آگے جا کر وہ ایک خبر بن جائے گی اور خود پر بے بنیاد الزام لگنے والا صفائیاں ہی دیتا پھرے گا۔"
عمیر رانا بھی کہتے ہیں سوشل میڈیا پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں۔ لہذٰا غلط خبریں لگا کر لوگ پیسے بھی کما لیتے ہیں جس کا اب سدِباب ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ بے بنیاد اور غلط خبر دینا اور جھوٹ لکھنا کسی حال میں درست نہیں اور نہ ہی کسی اور کی تصویر کے ساتھ کسی دوسرے کی خبر لگانا درست ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ 'فیک نیوز' شائع کرنے والے کو سخت سے سخت سزا دی جائے اور جہاں انہوں نے خبر لگائی یا جس پلیٹ فارم نے ان کے توسط سے اسے شائع کیا وہیں اس کی تردید بھی شائع کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ایک دو لوگوں کو سزا ملے گی تو کوئی بغیر تحقیق و تصدیق کے خبر نہیں چلائے گا اور شاید اسی طرح اس حرکت کو روکا جاسکے۔