رسائی کے لنکس

'جعلی' امریکی ایجنٹ کا آئی ایس آئی سے تعلقات کا دعویٰ


 چالیس سالہ آریان طاہرزادہ اور 35 سالہ حیدر علی کو خود کو مبینہ طور پر محکمۂ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے تفتیش کار ظاہر کرنے کے الزام میں بدھ کو گرفتار کیا گیا تھا۔
چالیس سالہ آریان طاہرزادہ اور 35 سالہ حیدر علی کو خود کو مبینہ طور پر محکمۂ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے تفتیش کار ظاہر کرنے کے الزام میں بدھ کو گرفتار کیا گیا تھا۔

امریکہ میں خود کو مبینہ طور پر امریکی وفاقی سیکیورٹی اہلکار ظاہر کرنے والے اور صدر جو بائیڈن کوتحفظ فراہم کرنے والی سیکریٹ سروس تک رسائی کے الزام میں گرفتار دو افراد میں سے ایک نے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے تعلقات کا دعویٰ کیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق دونوں ملزمان کو جمعرات کو پہلی بار عدالت میں پیش کیا گیا۔ استغاثہ نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ 40 سالہ آریان طاہرزادہ اور 35 سالہ حیدر علی کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے جنہیں مبینہ طور پر خود کو محکمۂ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے تفتیش کار ظاہر کرنے کے الزام میں بدھ کو گرفتار کیا گیا تھا۔

ان ملزمان پر خاتونِ اول جِل بائیڈن کی سیکیورٹی پر مامور ایک اہل کار سمیت سیکریٹ سروس کے اراکین کو پرکشش مراعات دینے کا بھی الزام ہے۔

محکمۂ انصاف کے اسسٹنٹ اٹارنی جوشوا روتھسٹائن نے جمعرات کو سماعت کے موقع پر عدالت کو بتایا کہ دونوں ملزمان کی جانب سے واشنگٹن ڈی سی میں واقع اپنے اپارٹمنٹ کی عمارت میں رہائش پذیر سیکیورٹی اہل کاروں کے ساتھ پینگیں بڑھانے سے چند ماہ قبل 2019 میں حیدر علی نے پاکستان، ترکی، ایران اور قطر کا سفر کیاتھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ حیدر علی نے ''گواہوں''کے سامنے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس کے پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) سے رابطے تھے۔

تاہم محکمۂ انصاف نے اس کیس کو تاحال قومی سلامتی کا مسئلہ قرار نہیں دیا ہے اور اس کی مجرمانہ معاملے کے طور پر تفتیش کی جا رہی ہے۔ البتہ سیکریٹ سروس نے ان ملزمان سے تعلق پر چار ایجنٹس کو معطل کردیا ہے۔

سیکریٹ سروس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ''اس معاملے میں ملوث تمام اہل کار ایڈمنسٹریٹو (انتظامی) چھٹیوں پر ہیں اور ان کی سیکریٹ سروس کی سہولتوں، آلات اور سسٹمز تک رسائی روک دی گئی ہے۔''

عدالت میں جمع کرائے جانے والے ایک حلف نامے کے مطابق طاہرزادہ اور حیدر علی دونوں امریکی شہری ہیں جو واشنگٹن ڈی سی کی جس رہائشی عمارت کے مکین تھے وہاں وفاقی سیکیورٹی اداروں سے تعلق رکھنے والے کئی اہل کار بھی رہتے ہیں۔

حلف نامے کے مطابق ملزمان نے ان میں سے کچھ ایجنٹس کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ وہ اسپیشل ہوم لینڈ سیکیورٹی کے تفتیش کار ہیں، وردیاں اور دستاویزات بھی دکھائیں۔

دونوں ملزمان پر ابتدائی طور پر خود کو امریکی حکومت کا اہل کار ظاہر کا الزام لگایا گیا تھا جس پر انہیں تین سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔ البتہ روتھسٹائن نے عدالت کو بتایا کہ اس الزام کو سازش تک بڑھایا جا سکتا ہے جس کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ سال تک قید ہے۔

اگرچہ ان دونوں افراد کے مقاصد غیرواضح ہیں لیکن ایک موقع پر انہوں نے ایک تیسرے شخص کی خدمات بھی حاصل کی تھیں اور اسے ''ایک ایسے فرد کے بارے میں تحقیق کرنے کا کام سونپا تھا جو محکمۂ دفاع اور انٹیلی جنس کمیونٹی کے ساتھ کام کر رہا ہو۔''

حلف نامے کے مطابق طاہرزادہ نے سیکریٹ سروس اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کے متعدد ملازمین کو اپنی رہائشی عمارت میں بلا معاوضہ اپارٹمنٹ دیے تھے جن کا ماہانہ کرایہ چار ہزار ڈالر تک بنتا ہے۔

مذکورہ حلف نامے کے مطابق انہوں نے ان لوگوں کو آئی فونز، نگرانی کا نظام، ٹیلی ویژن اور قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کے کام آنے والا دیگر ساز و سامان بھی فراہم کیاتھا۔

طاہر زادہ نے امریکی خاتونِ اول کی ٹیم میں کام کرنے والے سیکریٹ سروس ایجنٹ کو دو ہزار ڈالر کی اسالٹ رائفل کی پیش کش کی تھی اور ایجنٹ کی بیوی کو اپنی گاڑی دینے سمیت دیگر فائدے بھی پہنچائے تھے۔

حلف نامے کے مطابق طاہرزادہ اور حیدر علی جس عمارت میں رہائش پذیر تھے اس کے بظاہر کئی اپارٹمنٹ ان کے کنٹرول میں تھے اور طاہر زادہ کو عمارت کے مکمل سیکیورٹی سسٹم تک بھی رسائی حاصل تھی۔

اس کے علاوہ دونوں ملزمان کے زیرِ استعمال کالے رنگ کی جی ایم سی ایس یو وی تھیں جس پر ایمرجنسی لائٹس لگی ہوئی تھیں۔یہ گاڑیاں امریکہ میں عموماً قانون نافذ کرنےوالے اداروں کے اہل کار استعمال کرتے ہیں۔

طاہر زادہ کے پاس کئی ایسی ہینڈ گنز بھی تھیں جو امریکہ کے وفاقی قانون نافذ کرنے والے ادارے استعمال کرتے ہیں اور وہ لوگوں پر یہ ظاہر بھی کرتے تھے کہ انہیں امریکی ہوم لینڈ سیکیورٹی کے کمپیوٹر سسٹمز تک محفوظ رسائی حاصل ہے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG