وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے شعبہ تعلیم کے عہدیدار یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ دہشت گردی اور شورش پسندی کے دوران یہاں متاثر ہونے والے اسکولوں کی اکثریت کی تعمیر نو اور بحالی کا عمل مکمل ہو چکا ہے لیکن غیر جانبدار حلقے اس دعوے سے مطمیئن دکھائی نہیں دیتے۔
فاٹا کے شعبہ تعلیم کے عہدیدار زاہد اللہ وزیر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ قبائلی علاقوں میں کل 1406 اسکولز متاثر ہوئے تھے جن میں سے 555 مکمل جب کہ دیگر جزوی طور پر تباہ ہوئے تھے۔
ان کے بقول ان میں ایک ہزار اسکولوں کی نہ صرف تعمیر نو اور بحالی کا عمل مکمل ہو چکا ہے بلکہ یہاں تمام سہولتوں کے ساتھ تعلیمی سرگرمیاں بھی بحال ہو چکی ہیں۔
زاہد وزیر نے بتایا کہ ایسے علاقے جہاں ابھی اسکولوں کی تعمیر نو کا کام باقی ہے وہاں خیموں میں بچوں کی تعلیمی سرگرمیاں بحال کر دی گئی ہیں۔
لیکن اقوام متحدہ کے تعاون سے تعلیمی شعبے میں حکومت کی معاونت کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ عمر اورکزئی اس بات سے متفق نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2005ء سے 2014ء تک 1700 اسکول مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے جن میں سے ابھی تک محض ڈھائی سو اسکولوں کی تعمیرنو ہی مکمل ہو چکی ہے۔
"سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے اسکول ایک ہی کمرے پر مشتمل ہیں اور ان میں ایک ہی استاد ہے اور ایسے اسکولوں کی تعداد 108 کے قریب ہے اور یہ میں نہیں کہ رہا یہ سرکاری ڈیٹا ہے جب کہ غیر سرکاری اعدادوشمار تو اس سے کہیں زیادہ ہیں۔"
ان کے بقول قبائلی علاقوں کے تعلیمی اداروں میں لگ بھگ سات ہزار اساتذہ کی بھی کمی ہے۔
قبائلی علاقے خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک سرگرم سماجی کارکن منظور آفریدی بھی فاٹا کے شعبہ تعلیم کے دعوؤں سے متفق نہیں ہیں۔
"جب اسکول ہی مکمل نہیں ہوئے تو ان میں سہولتوں کی بات کہاں سے آگئی۔ جب یہ مکمل ہوں گے تو لوگ ان میں سہولتوں کا مطالبہ کریں گے۔"
ان کا کہنا تھا کہ اب بھی بہت سے اسکول تباہ شدہ حالت میں ہی ہیں جس سے مقامی بچوں کی تعلیم کا حرج ہو رہا ہے۔