رسائی کے لنکس

فاٹا کے صوبے میں انضمام کے امکانات مزید بڑھ گئے


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کی طرف سے قبائلی علاقوں کے صوبہ خیبرپختونخوا میں انضمام کی توثیق اور حزب مخالف کی جماعتوں کی جانب سے اس بارے میں اصلاحاتی بل کی بڑھتی ہوئی حمایت سے اس ضمن میں امکان مزید روشن ہو گئے ہیں کہ آئندہ ہفتے اسے اسمبلی میں پیش کر کے بل کو منظور کر لیا جائے گا۔

ہفتہ کو قومی سلامتی کمیٹی کے کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے اجلاس کے بعد دیر گئے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا کہ تمام جزیات کا تفصیل سے جائزہ لینے کے بعد کمیٹی قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کرنے اور وہاں قوانین، عدالتی نظام اور انتظامی ڈھانچہ متعارف کروانے کی توثیق کرتی ہے۔

حکومت کو اس اصلاحاتی بل پر اپنی دو حلیف جماعتوں جمعیت العمائے اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا رہا اور یہ اب تک اس بل کی حمایت سے انکاری چلی آ رہی ہیں۔

لیکن ہفتہ کو ہی پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف سمیت دیگر پارلیمانی جماعتوں اور قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی مشاورت بھی ہوئی جو ایک اور نشست کے بعد اس بل کو پارلیمان میں پیش کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔

حکومت نے یہ بل گزشتہ جمعہ کو پیش کرنا تھا لیکن حزب مخالف نے یہ موقف اختیار کیا کہ اس میں صرف انضمام کی بجائے تمام ضروری آئینی شقیں شامل کی جائیں جس کے بعد یہ بل موخر کر دیا گیا تھا۔

اب ایسی اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ یہ بل 23 مئی کو پیش کیا جائے گا۔ حکومت اپنی آئینی مدت 31 مئی کو مکمل کرنے جا رہی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ اس سے قبل ہی یہ قانون سازی مکمل ہو جائے۔

خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے سینیئر وکیل اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن کامران عارف کہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں کے عوام کے اس دیرینہ مطالبے کو بالآخر عملی جامہ پہنانے کے لیے دیکھی جانے والی سنجیدگی خوش آئند ہے۔

اتوار کو وائس آف امریکہ بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ "خوش آئند اس لیے نہیں کہ فاٹا کو صوبے میں ضم کیا جا رہا ہے بلکہ اس لیے ہے کہ قبائلی لوگوں کو آئینی حقوق میسر ہو جائیں گے اور جو باقی ملک کے قوانین ہیں وہ بھی لاگو ہو جائیں گے، ایف سی آر جیسے کالے قانون سے ان کی جان چھوٹ جائے گی، ہم اسے اس نظر سے دیکھتے ہیں۔"

کامران عارف نے کہا کہ انضمام کے لیے آئینی ترمیم ایک پیچیدہ ترمیم ہے اور اس پر عملدرآمد بھی ایک بڑا چیلنج ہو گا۔

قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کا عمل پانچ کی بجائے ایک سال میں مکمل کیے جانے کے مطالبات بھی سامنے آئے تھے اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات 2019 میں ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG