وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے گزشتہ چار برسوں میں دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور اس عرصے میں پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاک ہونے والوں میں سے تقریباً نصف تعداد فاٹا کے لوگوں کی تھی۔
یہ بات سرحدی علاقوں اور ریاستوں کے امور (سیفرون) کی وفاقی وزارت نے پارلیمان کے ایوانِ بالا میں ایک قانون ساز کے استفسار پر اپنے تحریری جواب میں بتائی ہے۔
وزارت کے مطابق 2013ء سے 2017ء کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 6966 افراد ہلاک ہوئے جن میں 3062 اموات قبائلی علاقوں میں پیش آنے والے واقعات میں ہوئیں۔
وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے سات ایجنسیوں پر مشتمل ہیں اور انھیں ایک عرصے سے شدت پسندی کا سامنا رہا ہے۔ تقریباً ایک دہائی قبل پاکستانی فوج نے مختلف قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں شروع کی تھیں جن میں سب سے بڑا آپریشن 2014ء میں ضربِ عضب کے نام سے دہشت گردوں کے مضبوط گڑھ تصور کیے جانے والے شمالی وزیرستان میں شروع کیا گیا۔
اس وقت بھی قبائلی علاقوں سمیت ملک بھر میں سکیورٹی فورسز آپریشن 'رد الفساد' کے نام سے کارروائیاں کر رہی ہیں۔
سکیورٹی فورسز کے آپریشنز کی بدولت ماضی کی نسبت ملک میں امن و امان کی صورتِ حال میں بتدریج بہتری آئی ہے۔
وزارت سیفرون کے مطابق سب سے زیادہ ہلاکتیں کرم ایجنسی میں ہوئیں جہاں ان چار برسوں میں کل 1845 افراد مارے گئے۔ خیبر ایجنسی 1055 ہلاکتوں کے ساتھ دوسرا مہلک ترین علاقہ رہا۔
جانی نقصان کے علاوہ یہاں املاک کو بھی شدید نقصان پہنچا جو نہ صرف دہشت گرد واقعات کا نشانہ بنیں بلکہ شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے بھی متاثر ہوئیں۔
وزارت کے مطابق قبائلی علاقوں میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو امدادی رقوم کی مد میں اب تک ڈیڑھ ارب روپے سے زائد دیے جا چکے ہیں۔
قبائلی علاقوں میں امن و امان کی صورتِ حال میں گو کہ ماضی کی نسبت بہتری آئی ہے لیکن وہاں شدت پسندوں کی طرف سے بچھائی جانے والی بارودی سرنگیں اب بھی ایک بڑا خطرہ تصور کی جاتی ہیں اور اکثر ان کی زد میں آ کر عام شہریوں کے علاوہ سکیورٹی اہلکار بھی ہلاک و زخمی ہوتے رہتے ہیں۔
رواں ماہ ہی حکومت نے اعلان کیا تھا کہ بارودی سرنگوں کے دھماکے میں زخمی ہونے والے قبائلیوں کو زرِ تلافی دینے کے ساتھ ساتھ ان سرنگوں کی صفائی کے لیے بھی مزید اقدامات کیے جائیں گے۔