واشنگٹن —
جب میں پاکستان سے امریکہ کے سفر پر چلی تو دل و دماغ ایک انجانےخوف میں مبتلا تھے۔ کبھی یوں لگتا جیسے کسی احساسِ کمتری نے آگھیرا ہے۔ اور بعض اوقات، یوں محسوس ہوتا جیسے میں امریکہ جس مقصد سے جا رہی ہوں شاید وہ پورا کیے بغیر ہی لوٹنا پڑے۔ اس سب کےباوجود میں اس سفر پرجانا چاہتی تھی، یہ دیکھنے کے لیے کہ آخر میری قوتِ برداشت کتنی ہے اور یہ کہ زندگی کے اس تجربے سے مجھے کیا کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے؟
لاہور میں صحافت کرتے ابھی پانچ برس ہی گزرے تھے جب مجھے امریکہ میں ’ہیوبرٹ ہمفری فیلو شپ‘ کے لیے منتخب کیا گیا۔ اِس پروگرام کے تحت امریکہ میں ایک سال تک رہ کر نہ صرف صحافت کی جدیدتعلیم حاصل کرنا تھی، بلکہ اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانے کا موقع بھی ملنے والا تھا۔
میرے ساتھی صحافیوں کا کہنا تھا کہ یہ پروگرام امریکہ کی طرف سے ترقی پذیر ممالک کو دی جانے والی امداد کا حصہ ہے۔ بعض کہتے کہ دیکھ لینا، وہ تمہیں اپنا جاسوس بنا کر واپس پاکستان بھیجیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ کبھی پاک امریکہ صحافیوں کا موازنہ اور ان کی برتری میرے اندر احساس کمتری کو مزید ہوا دیتی اور کبھی میرے ساتھیوں کی باتیں مجھے خوفزدہ کر دیتیں۔
ویسے تو پاکستان میں بحیثیت ایک نامہ نگار اپنا آپ منوانے کے لیے محنت کے ساتھ ساتھ اور ’محاذوں‘ پر جنگ بھی لڑنا پڑتی تھی۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ خواتین صرف پھولوں، مصوری کی نمائش یا بچوں اور خواتین سے متعلق خبریں لکھنے کے لیے ہی اس پیشے میں نہیں آتیں۔ بلکہ، وہ بم دھماکوں جیسی پُرخطر، دماغی کثرت والی سٹاک ایکسچینج اور سیاست جیسی ہل چل والی خبریں بھی با آسانی رپورٹ کر سکتی ہیں۔
لیکن، یہ صرف میری ہی ’جنگ‘ نہیں تھی۔ بلکہ، دیگر اداروں میں کام کرنے والی خواتین کو بھی کچھ اِسی نوعیت کے مسائل کا سامنا تھا۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اکیسویں صدی کے اِس جدید دور میں بھی ہمارے ملک میں خواتین کا روزگار کے لیے گھر سے باہر نکلنا اور خاص طور پر صحافت کے پیشے سے منسلک ہونا شجر ِممنوعہ ہی سمجھا جاتا ہے۔
پاکستانی ادارہٴ مردم شماری کے مطابق، خواتین ہمارے ملک کی کُل آبادی کا 50 فیصد سے زائد حصہ ہیں۔ عالمی تنظیم برائے محنت (آئی ایل او ) کی ایک تازہ تحقیق کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کے تناسب سے برسر ِروزگار افراد کی شرح سال 2011 ءمیں 50.4 فیصد تھی، جس میں 80 فیصد مرد جبکہ صرف 20 فیصد خواتین برسر روزگار تھیں۔
میڈیا کی دنیا میں اخبار یا ٹیلی ویژن چینلز سے منسلک خواتین کی شرح جو عالمی معیار کے مطابق اصولاً 30 سے 50 فیصد ہونی چاھئیے، پاکستان میں محض 5 سے 10 فیصد ہی ہے۔
قصہ مختصر۔ آخرِکار وہ دن آہی گیا جب میں نے اپنے ٹی وی چینل کے مالک سے امریکہ جانے کے لیے ایک سال کی چھٹی کی درخواست کی۔ ویسے تو مجھے اندازہ تھا کہ یہ قدرے مشکل کام ہے مگر میں یہ نہیں جانتی تھی یہ کام ناممکن ہوگا۔ مجھ سے پانچ برس کی خدمات کے عوض استعفیٰ طلب کیا گیا، جسے دینے میں میں نے ایک لمحے کی تاخیر بھی مناسب نہ سمجھی۔
امریکہ میں شروع کے ایک دو ماہ تو ریاست کیلیفورنیا میں امریکہ کی تہذیب وثقافت جاننے میں گذرے۔ مگر، اِس کے بعد، میں ریاست ایریزونا کے دارالحکومت ، فینکس پہنچی، جہاں باقاعدہ طور پر میری صحافتی تعلیم کا آغاز ہوا۔
اِس دوران، ’والٹر کرونکائٹ سکول آف جرنلزم‘ کے ٹی وی چینل اور فینکس کےایک مقامی ٹی وی چینل میں بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ میرے اندر کے خوف اور ڈر سب نکل چکے تھے۔ نہ جانے میں کیوں اب تک خودکو اتنا مظلوم سمجھتی رہی تھی؟ جب بھی میں یہاں کی خواتین صحافیوں کو کام کرتے دیکھتی اور اُن کے مسائل سنتی ہوں، تو مجھے اُن میں اور خود میں کچھ زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا۔ بلکہ، اکثر تو میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ وہ مجھے بے حد فخر اور رشک کی نظر سے دیکھتی اور میرے تجربات کو سنتی اور سراہتی ہیں۔
پاکستانی اور امریکی خواتین صحافیوں میں فرق بس اتنا ہے کہ یہاں کی خواتین اپنی مرضی سے صحافت میں آتی ہیں اور اُن پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا۔ رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ اپنی خبر، رپورٹ یا ڈاکیومینٹری کی فلم بندی سے لے کر اسے’ آن ائیر‘ کرنے تک کی ساری تکنیک جانتی ہیں۔ انہیں ہر وقت بن ٹھن کر اور میک اپ کرکے بیٹھنا پڑتا ہے چاہے انہیں ٹی وی پر نظر آنا ہو یا نہیں اور چاہے ان کا دل چاہ رہا ہو یا نہیں۔ اور ہاں، اُن کے دفتر میں اُن کے بیٹھنے کے لیے مناسب جگہ اور کام کے لیے کمپیوٹر سسٹم بھی موجود ہوتے ہیں۔ دوسری طرف مماثلت یہ تھی کہ دونوں ممالک کی خواتین صحافیوں کو اپنے ادارے میں جگہ بنانے کے لیےتقریباً ایک جیسی ہی دشواریوں کا سامنا ہے۔ میرے لیے یہ بات جہاں حیران کُن تھی وہیں تسلی بخش بھی، کیونکہ اِس طرح، میرے اندر کا احساس کمتری کسی حد تک کم ہو گیا تھا۔
دونوں ممالک میں خواتین کوجسمانی اور ذہنی طور پر ہراساں کرنا بھی عام ہے۔ پاکستان میں ’وومن پروٹیکشن بل 2010ء‘ منظور ہونے کے بعد کام کرنے والی خواتین کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ہراساں کیے جانے والی کسی بھی ایسی حرکت کی شکایت کر سکتی ہیں ۔ مگر، یہ خوف کہ معاشرہ کیا کہے گا؟ گھر والے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگادیں گے، اور بغیر کسی گناہ کے گناہ گار کہلوائے جانے کا ڈر اور پھر باس کے خاموش رہنے پر اصرار خواتین کو اپنی زبان بند رکھنے پرمجبور کر دیتا ہے۔
پاکستان میں تو کبھی کبھار مجھے یوں محسوس ہوتا کہ گھر سے کام کاج کی خاطر نکلنے والی خواتین کو ہمارے معاشرے کا مرد اپنی جاگیر سمجھتا ہے۔ اور میڈیا کی دنیا میں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے اُن مردوں کی اِس روایتی سوچ کوتقویت دینے والی کچھ خواتین ترقی کے زینوں کو بڑی تیزی سے عبور کرجاتی ہیں۔
فینکس میں میری ملاقات سی این این کی لندن میں مقیم رپورٹر بیکی اینڈرسن سے بھی ہوئی جو گذشتہ 14 برس سے خبروں کے اس عالمی چینل سے منسلک ہیں۔ بیکی اپنے صحافتی سفر کے دوران کئی ملکوں کے صدور اور وزرائے اعظم کا انٹرویو کر چکی ہیں۔
بات چیت کے دوران، مجھے معلوم ہوا کہ امریکہ میں بھی خواتین صحافیوں کے حالات کچھ مختلف نہیں۔ جب اُنہوں نے مجھے یہ بتایا کہ وہ ’وار زون‘سے ابھی واپس آئی ہی تھیں کہ اُنہیں لندن کی شاہی شادی کی کوریج کے لیے بھیج دیا گیا۔ شاہی خاندان کی شادی کا سُن کر میں نے تو بڑے رشک بھری نظروں سے اُن کی طرف دیکھا۔ مگر، اُن کے لیے اِس شادی کو کورکرنا ویسا ہی تھا جیسا میرے لیے شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی شادی کو کور کرنا۔
بیکی اینڈرسن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی طرح امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی خواتین کی تنخواہ مرد صحافیوں سے کم ہے۔ یہاں پر بھی اعلیٰ عہدوں کے لیے مردوں کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ جنسی طور پر خواتین کو ہراساں کرنے کا رجحان بھی بہرحال موجود ہے۔
اگر یہ سب میں امریکہ آنے سے پہلے سنتی تو شاید یقین کرنا ذرا مشکل ہوتا۔
مگر، میں نے یہاں کے کچھ بڑے اور چھوٹے اداروں میں ایسا اپنی آنکھوں سے خود دیکھا۔ جس کے بعد، میرا یہ خیال مزید پختہ ہو گیا ہے کہ خواتین چاہے مشرق کی ہوں یا مغرب کی اُن کو اپنا آپ منوانے میں دقت کا سامنا ہوتا ہے۔
لیکن، کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے پہلا قدم اٹھانا ضروری ہوتا ہے، اور میں اور میرے ساتھ کام کرنے والی دیگر خواتین یہ پہلا قدم اٹھا چکی ہیں۔
لاہور میں صحافت کرتے ابھی پانچ برس ہی گزرے تھے جب مجھے امریکہ میں ’ہیوبرٹ ہمفری فیلو شپ‘ کے لیے منتخب کیا گیا۔ اِس پروگرام کے تحت امریکہ میں ایک سال تک رہ کر نہ صرف صحافت کی جدیدتعلیم حاصل کرنا تھی، بلکہ اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو مزید بہتر بنانے کا موقع بھی ملنے والا تھا۔
میرے ساتھی صحافیوں کا کہنا تھا کہ یہ پروگرام امریکہ کی طرف سے ترقی پذیر ممالک کو دی جانے والی امداد کا حصہ ہے۔ بعض کہتے کہ دیکھ لینا، وہ تمہیں اپنا جاسوس بنا کر واپس پاکستان بھیجیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ کبھی پاک امریکہ صحافیوں کا موازنہ اور ان کی برتری میرے اندر احساس کمتری کو مزید ہوا دیتی اور کبھی میرے ساتھیوں کی باتیں مجھے خوفزدہ کر دیتیں۔
ویسے تو پاکستان میں بحیثیت ایک نامہ نگار اپنا آپ منوانے کے لیے محنت کے ساتھ ساتھ اور ’محاذوں‘ پر جنگ بھی لڑنا پڑتی تھی۔ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ خواتین صرف پھولوں، مصوری کی نمائش یا بچوں اور خواتین سے متعلق خبریں لکھنے کے لیے ہی اس پیشے میں نہیں آتیں۔ بلکہ، وہ بم دھماکوں جیسی پُرخطر، دماغی کثرت والی سٹاک ایکسچینج اور سیاست جیسی ہل چل والی خبریں بھی با آسانی رپورٹ کر سکتی ہیں۔
لیکن، یہ صرف میری ہی ’جنگ‘ نہیں تھی۔ بلکہ، دیگر اداروں میں کام کرنے والی خواتین کو بھی کچھ اِسی نوعیت کے مسائل کا سامنا تھا۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اکیسویں صدی کے اِس جدید دور میں بھی ہمارے ملک میں خواتین کا روزگار کے لیے گھر سے باہر نکلنا اور خاص طور پر صحافت کے پیشے سے منسلک ہونا شجر ِممنوعہ ہی سمجھا جاتا ہے۔
پاکستانی ادارہٴ مردم شماری کے مطابق، خواتین ہمارے ملک کی کُل آبادی کا 50 فیصد سے زائد حصہ ہیں۔ عالمی تنظیم برائے محنت (آئی ایل او ) کی ایک تازہ تحقیق کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کے تناسب سے برسر ِروزگار افراد کی شرح سال 2011 ءمیں 50.4 فیصد تھی، جس میں 80 فیصد مرد جبکہ صرف 20 فیصد خواتین برسر روزگار تھیں۔
میڈیا کی دنیا میں اخبار یا ٹیلی ویژن چینلز سے منسلک خواتین کی شرح جو عالمی معیار کے مطابق اصولاً 30 سے 50 فیصد ہونی چاھئیے، پاکستان میں محض 5 سے 10 فیصد ہی ہے۔
قصہ مختصر۔ آخرِکار وہ دن آہی گیا جب میں نے اپنے ٹی وی چینل کے مالک سے امریکہ جانے کے لیے ایک سال کی چھٹی کی درخواست کی۔ ویسے تو مجھے اندازہ تھا کہ یہ قدرے مشکل کام ہے مگر میں یہ نہیں جانتی تھی یہ کام ناممکن ہوگا۔ مجھ سے پانچ برس کی خدمات کے عوض استعفیٰ طلب کیا گیا، جسے دینے میں میں نے ایک لمحے کی تاخیر بھی مناسب نہ سمجھی۔
امریکہ میں شروع کے ایک دو ماہ تو ریاست کیلیفورنیا میں امریکہ کی تہذیب وثقافت جاننے میں گذرے۔ مگر، اِس کے بعد، میں ریاست ایریزونا کے دارالحکومت ، فینکس پہنچی، جہاں باقاعدہ طور پر میری صحافتی تعلیم کا آغاز ہوا۔
اِس دوران، ’والٹر کرونکائٹ سکول آف جرنلزم‘ کے ٹی وی چینل اور فینکس کےایک مقامی ٹی وی چینل میں بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ میرے اندر کے خوف اور ڈر سب نکل چکے تھے۔ نہ جانے میں کیوں اب تک خودکو اتنا مظلوم سمجھتی رہی تھی؟ جب بھی میں یہاں کی خواتین صحافیوں کو کام کرتے دیکھتی اور اُن کے مسائل سنتی ہوں، تو مجھے اُن میں اور خود میں کچھ زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا۔ بلکہ، اکثر تو میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ وہ مجھے بے حد فخر اور رشک کی نظر سے دیکھتی اور میرے تجربات کو سنتی اور سراہتی ہیں۔
پاکستانی اور امریکی خواتین صحافیوں میں فرق بس اتنا ہے کہ یہاں کی خواتین اپنی مرضی سے صحافت میں آتی ہیں اور اُن پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا۔ رپورٹنگ کے ساتھ ساتھ اپنی خبر، رپورٹ یا ڈاکیومینٹری کی فلم بندی سے لے کر اسے’ آن ائیر‘ کرنے تک کی ساری تکنیک جانتی ہیں۔ انہیں ہر وقت بن ٹھن کر اور میک اپ کرکے بیٹھنا پڑتا ہے چاہے انہیں ٹی وی پر نظر آنا ہو یا نہیں اور چاہے ان کا دل چاہ رہا ہو یا نہیں۔ اور ہاں، اُن کے دفتر میں اُن کے بیٹھنے کے لیے مناسب جگہ اور کام کے لیے کمپیوٹر سسٹم بھی موجود ہوتے ہیں۔ دوسری طرف مماثلت یہ تھی کہ دونوں ممالک کی خواتین صحافیوں کو اپنے ادارے میں جگہ بنانے کے لیےتقریباً ایک جیسی ہی دشواریوں کا سامنا ہے۔ میرے لیے یہ بات جہاں حیران کُن تھی وہیں تسلی بخش بھی، کیونکہ اِس طرح، میرے اندر کا احساس کمتری کسی حد تک کم ہو گیا تھا۔
دونوں ممالک میں خواتین کوجسمانی اور ذہنی طور پر ہراساں کرنا بھی عام ہے۔ پاکستان میں ’وومن پروٹیکشن بل 2010ء‘ منظور ہونے کے بعد کام کرنے والی خواتین کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ہراساں کیے جانے والی کسی بھی ایسی حرکت کی شکایت کر سکتی ہیں ۔ مگر، یہ خوف کہ معاشرہ کیا کہے گا؟ گھر والے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگادیں گے، اور بغیر کسی گناہ کے گناہ گار کہلوائے جانے کا ڈر اور پھر باس کے خاموش رہنے پر اصرار خواتین کو اپنی زبان بند رکھنے پرمجبور کر دیتا ہے۔
پاکستان میں تو کبھی کبھار مجھے یوں محسوس ہوتا کہ گھر سے کام کاج کی خاطر نکلنے والی خواتین کو ہمارے معاشرے کا مرد اپنی جاگیر سمجھتا ہے۔ اور میڈیا کی دنیا میں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے اُن مردوں کی اِس روایتی سوچ کوتقویت دینے والی کچھ خواتین ترقی کے زینوں کو بڑی تیزی سے عبور کرجاتی ہیں۔
فینکس میں میری ملاقات سی این این کی لندن میں مقیم رپورٹر بیکی اینڈرسن سے بھی ہوئی جو گذشتہ 14 برس سے خبروں کے اس عالمی چینل سے منسلک ہیں۔ بیکی اپنے صحافتی سفر کے دوران کئی ملکوں کے صدور اور وزرائے اعظم کا انٹرویو کر چکی ہیں۔
بات چیت کے دوران، مجھے معلوم ہوا کہ امریکہ میں بھی خواتین صحافیوں کے حالات کچھ مختلف نہیں۔ جب اُنہوں نے مجھے یہ بتایا کہ وہ ’وار زون‘سے ابھی واپس آئی ہی تھیں کہ اُنہیں لندن کی شاہی شادی کی کوریج کے لیے بھیج دیا گیا۔ شاہی خاندان کی شادی کا سُن کر میں نے تو بڑے رشک بھری نظروں سے اُن کی طرف دیکھا۔ مگر، اُن کے لیے اِس شادی کو کورکرنا ویسا ہی تھا جیسا میرے لیے شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی شادی کو کور کرنا۔
بیکی اینڈرسن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی طرح امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی خواتین کی تنخواہ مرد صحافیوں سے کم ہے۔ یہاں پر بھی اعلیٰ عہدوں کے لیے مردوں کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ جنسی طور پر خواتین کو ہراساں کرنے کا رجحان بھی بہرحال موجود ہے۔
اگر یہ سب میں امریکہ آنے سے پہلے سنتی تو شاید یقین کرنا ذرا مشکل ہوتا۔
مگر، میں نے یہاں کے کچھ بڑے اور چھوٹے اداروں میں ایسا اپنی آنکھوں سے خود دیکھا۔ جس کے بعد، میرا یہ خیال مزید پختہ ہو گیا ہے کہ خواتین چاہے مشرق کی ہوں یا مغرب کی اُن کو اپنا آپ منوانے میں دقت کا سامنا ہوتا ہے۔
لیکن، کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے پہلا قدم اٹھانا ضروری ہوتا ہے، اور میں اور میرے ساتھ کام کرنے والی دیگر خواتین یہ پہلا قدم اٹھا چکی ہیں۔