رسائی کے لنکس

’اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تجھے‘ ۔۔۔


Artist: Jugni
Artist: Jugni

معاشرے کی اکثریت کو یہ گمان کیوں ہوتا ہے کہ گھر سے نکلنے والی ہر عورت ’بری عورت‘ ہے۔ جس کی وُقعت مٹھائی کی دکان کے رنگین شو کیس میں سجے کیک، پیسٹری سے زیادہ نہیں ...

’ایسے ماحول میں ہم اپنے گھر کی عورتوں کو باہر کیسے نکلنے دے سکتے ہیں؟ اس ’بیمار سوچ‘ کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں؟‘

یہ سوال تھا میرے بہنوئی وہاب کا، جو مکینیکل انجینئیر ہے اور ان لوگوں سے مختلف بھی جنہیں خواتین کا نوکری کرنا پسند نہیں۔ وہ اپنی بیگم کو بھی نوکری کرنے کے مشورے دیتا رہتا ہے اور اپنی نومولود بیٹی کو ہارورڈ یا آکسفورڈ میں پڑھانے کے خواب بُن رہا ہے ۔۔۔ لیکن اپنے ڈرائیور کے بیان کردہ ایک واقعے نے اسے پریشان کر دیا تھا، وہ
بتانے لگا، ’دفتر سے گھر واپسی پر میرے ڈرائیور نے مجھے ایک قصہ سنایا۔ وہ موٹروے کے ذریعے اپنے گاؤں سے واپس لاہور آرہا تھا۔ راستے میں جب ٹول پلازہ پر رکا تو اسے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ ٹول پلازہ پر خواتین بھی ملازمت کرنے لگی ہیں۔ بقول ڈرائیور، ’میں نے خاتون کو ٹول پلازہ کی فیس ادا کی، جب اس نے مجھے بقایا دینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا‘ ۔۔۔ میرا ڈرائیور یہ واقعہ سنا کر دیر تک یوں ہنستا رہا جیسے اس نے واقعی کوئی کارنامہ سر انجام دیا تھا‘۔

ایک ملازمت پیشہ خاتون ہونے کے ناطے مجھے یہ واقعہ کسی تازیانے سے کم نہیں لگا ۔۔۔ چند روز پہلے ہی بھارت میں ایک تئیس سالہ لڑکی کے ساتھ اجتماعی زیادتی اور موت کا قصہ ابھی ذہن سے محو نہیں ہوا تھا کہ بظاہر اس چھوٹے سے واقعے نے مجھے جیسے کسی زبردست نقصان کا احساس دلایا ۔۔۔ مجھے یوں لگا کہ جیسے کسی نے اندر باہر سے میری روح کو جھلسا دیا ہو ۔۔۔ جیسے موٹروے کے ٹول پلازا پراس عورت کی جگہ میں جا بیٹھی ۔۔۔ اور اس سے آگے کا سوچ کر بھی میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔۔۔

ابھی کل ہی کی تو بات لگتی ہے جب چند سال پہلے میں نے ماسٹرز کے بعد ملازمت کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ میرے والدین کو میرے ملازمت کرنے پر کوئی اعتراض نہ ہونے کے باوجود مجھے خاندان کے چند لوگوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان کے نزدیک ملازمت اور بالخصوص شعبہ ِ صحافت ان کے گھر کی لڑکی کے لیے کسی طور بھی موزوں نہیں تھا۔ وہی روایتی باتیں، ’کیا ضرورت ہے اسے نوکری کرنے کی‘ ۔۔۔ ’بس گھر بٹھا کر شادی کر دیں‘ ۔۔۔ ’گھر میں پیسوں کی کیا کمی ہے جو یہ نوکری کرنا چاہتی ہے‘ ۔۔۔ ’صحافت میں شریف گھرانے کی بچیوں کا کیا کام‘ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔


اس وقت صحافتی میدان میں اتنی لڑکیاں کام بھی نہیں کررہی تھیں۔ صحافت کو بطور پیشہ اپنانے کا رواج بھی اتنا ’اِن‘ نہیں تھا ۔۔۔۔ مگر زمانہ بدلا، الیکڑونک میڈیا نے جڑیں پکڑیں اور بظاہر ایم بی اے اور آئی ٹی کا شعبہ اپنانے والے طالبعلموں نے بھی اچھے پیسوں کی ملازمت کے حصول کے لیے صحافت کا دامن پکڑنے میں ہی عافیت سمجھی ۔۔۔ کام کا کام اورنام اور شناخت الگ ۔۔۔ ایک بھیڑ چال کا سا ماحول بن گیا لیکن اس بھیڑ چال میں بھی خیر کے کئی پہلو تھے ۔۔۔ جن میں سر ِ فہرست اس شعبے کی جانب لڑکیوں کا رخ کرنا تھا۔۔۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی لڑکیوں نے صحافت میں قدم جمائے ۔۔۔ اور جیسے ہر شعبے میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں ۔۔۔ ویسے ہی صحافت میں آنے والی لڑکیاں بھی مختلف پس منظر سے آئی تھیں اور مختلف مزاج رکھتی تھیں ۔۔۔ کچھ لڑکیاں بہت فیشن ایبل تھیں، کچھ بہت سادہ بھی تھیں اور کچھ الٹرا ماڈرن تھیں ۔ آج پیچھے پلٹ کر اپنے ساتھ لاہور میں ایک نیوز چینل میں کام کرنے والی لڑکیوں کو یاد کرتی ہوں تو کتنے ہی چہرے ذہن پر مٹتے ابھرتے چلے جا رہے ہیں ۔۔۔

بڑے سے دوپٹے میں خود کو لپیٹے وہ لڑکی جو موسم کی شدت سے بے نیاز لاہور کی چلچلاتی دھوپ میں پوری
تندہی سے رپورٹنگ کرتی تھی۔ واپس آکر نیوز رپورٹس فائل کرتی تھی۔ اور کبھی کبھی تو صبح آٹھ بجے کی آئی رات کو بارہ بجے کے بعد ہی اپنے گھر کا رخ کر پاتی تھی۔ وہی جو اپنی چھ بہنوں میں سب سے بڑی تھی اور جس کا کوئی بھائی نہیں تھا۔ جو اپنے والد کا سہارا بننا چاہتی تھی اور انہیں بیٹا بن کر دکھانا چاہتی تھی۔

اور وہ لڑکی جو سندھ کے ایک دور افتادہ علاقے سے آئی تھی۔ سندھی لہجے میں اردو بولتی تھی۔ جس کا باپ کھیتوں میں پانی لگاتا تھا، روکھی سوکھی کھاتا تھا لیکن اپنی بیٹی کو پڑھا کر اپنے خواب پورے کرنا چاہتا تھا۔ وہی لڑکی جس نے اپنے باپ کے خوابوں کی لاج رکھی تھی، محنت کی تھی اور نیوز چینل کے پینل پر بطور پروڈیوسر بیٹھتی تھی۔

اور وہاڑی کی اس لڑکی کو میں کیسے بھول سکتی ہوں ۔۔۔ جو آفس کو آرڈینیٹر کے طور پر آئی تھی، جس کے اکلوتے بھائی نے شادی کے بعد اپنے والدین کو چھوڑ دیا تھا۔ جسے اپنے ہارٹ پیشنٹ باپ کی دوائیں لانے کے لیے ملازمت اختیار کرنا پڑی تھی۔ جو ہفتے میں ایک دن کی چھٹی کو غنیمت سمجھ کر باقاعدگی سے وہاڑی جاتی تھی۔ اور اگلے دن سفر کرکے وہاں سے براہ ِ راست کام پر پہنچتی تھی۔

وہ ادھیڑ عمر خاتون جو پچھلے دس سال سے اسی چینل کے اخبار سے منسلک تھیں اور اب کاپی ایڈیٹر کے طور پرنیوز چینل میں آئی تھیں۔ وہی خاتون جن کے شوہر نے انہیں شادی کے بارہ سال بعد ایک دوسری عورت پسند آجانے پر چھوڑ دیا تھا اور جن کے تین بچوں کی فیس، کپڑے لتے اور باقی اخراجات کا واحد آسرا ان ہی کی تنخواہ تھی۔

اب یاد کرنے بیٹھی ہوں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ہر چہرے کے پیچھے کوئی کہانی تھی۔
۔۔ ایک ایسی کہانی جس کے تانے بانے گھر، گھر کی ضروریات ، ماں باپ، بہن بھائی، شوہر اور بچوں میں چھپے تھے۔ کون عورت پورا دن دفتر میں مغز ماری کے بعد گھر کے کام دھندے نمٹا کر ’ڈبل نوکری‘ کرنا چاہتی ہے؟ ۔۔۔ تو پھر معاشرے کی اکثریت کو یہ گمان کیوں ہوتا ہے کہ گھر سے نکلنے والی ہر عورت ’بری عورت‘ ہے۔ جس کی وُقعت مٹھائی کی دکان کے رنگین شو کیس میں سجے کیک، پیسٹری سے زیادہ نہیں۔

یاد داشت پر تھوڑا زور دیتی ہوں تو یاد آتا ہے کہ 2010 میں صدر ِ پاکستان نے ’کام کرنے
کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ‘ کے ایک بل پر دستخط کیے تھے ۔۔۔ جسے پارلیمنٹ نے 2010 جبکہ سینیٹ نے 2012 میں منظور کیا تھا۔ اس بل کی ’تعریفات‘ کی شق ’ح‘ ’خوف و ہراس‘ کی تشریح کچھ اس طرح کرتی ہے:

’خوف و ہراس‘ سے مراد ہے، ’کوئی ناپسندیدہ پیش قدمی، جسمانی تعلقات کے لیے زبانی یا تحریری درخواست،
ایسی صنفی تذلیل جو کام کی انجام دہی میں رکاوٹ کا سبب بنے یا ایسا خوف و ہراس جو جارحانہ یا مخالفانہ ماحول کا باعث بنے‘ ۔۔۔ خواتین ان میں سے کسی بھی شکایت کی صورت میں اِس بل کے تحت اپنا تحفظ یقینی بنا سکتی ہیں۔

2011 میں جرمنی کے نشریاتی ادارے ’ڈویچے ویلا‘ کی جانب سے شائع کی گئی ایک رپورٹ کے الفاظ میں، ’پاکستان میں ہر سال ہزاروں خواتین کام پر اپنے مرد ساتھیوں کی جانب سے ہراساں کی جاتی ہیں۔ لیکن خواتین کی اکثریت اس معاملے میں خاموشی اختیار کیے رکھتی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ’خواتین کے تحفظ کے بل‘ کے باوجود پاکستان میں کام کرنے والی 70 فیصد خواتین روزانہ کام پر کسی نہ کسی صورت میں ہراساں کی جاتی ہیں‘۔

یہ حقیقت ہے کہ زمانے کے انداز بدلنے اور آج سے
دس بیس برس پہلے کی نسبت قدرے ’ماڈرن‘ ہونے کے باوجود آج بھی دفاتر میں کام کرنے والی اکثر خواتین پر تبصرے کیے جاتے ہیں، رائے دی جاتی ہے، بات کی جاتی ہے اور بعض اوقات تو حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش بھی کی جاتی ہے۔ اور جو اس پر تیار نہیں ہوتیں، ان کے بارے میں بے بنیاد باتیں پھیلانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔۔۔

میں بھی اکثر لوگوں کی طرح سوچتی ہوں کہ ہمارے آپ کے روایتی معاشرے میں عورت کو کام کے لیے باہر نکلنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ۔۔۔ آخر گھر میں ٹِک کر کیوں نہیں بیٹھتیں؟ ۔۔۔ کیوں نوکری کے عذاب میں پھنس کر اپنی توقیر گھٹاتی ہیں ؟ ۔۔۔

لیکن پھر کیفی اعظمی کی مشہور نظم ’عورت‘ کی کچھ سطریں یاد آجاتی ہیں۔ جہاں وہ عورت سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں:

قدر اب تک تیری تاریخ نے جانی ہی نہیں
تجھ میں شعلے بھی ہیں بس اشک فشانی ہی نہیں
تُو حقیقت بھی ہے دلچسپ کہانی ہی نہیں
تیری ہستی بھی ہے اِک چیز، جوانی ہی نہیں
اپنی تاریخ کا عنوان بدلنا ہے تجھے


اُٹھ میری جان میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے ۔۔۔ !!
XS
SM
MD
LG