امریکہ کے وفاقی تفتیشی ادارے (ایف بی آئی) کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے نے کہا ہے کہ رواں برس چھ جنوری کو کانگریس کی عمارت پر ہونے والی ہنگامہ آرائی اندرونی دہشت گردی کا واقعہ تھا۔ اُس روز کانگریس میں جو بائیڈن کی صدارتی انتخاب میں جیت کی توثیق کے لیے اجلاس جاری تھا۔
فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن کے ڈائریکٹر نے سینیٹ کے ایک پینل کو بتایا کہ کانگریس کا گھیراؤ ایک مجرمانہ رویہ تھا۔
انہوں نے سینیٹ کی کمیٹی برائے عدلیہ کو ایک سماعت کے آغاز میں ایک بیان میں بتایا "یہ ایک ایسا رویہ تھا جسے ہم ایف بی آئی میں دہشت گردی کے زمرے میں دیکھتے ہیں۔ ہماری جمہوریت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں اور اسے برداشت کرنا قانون کے نفاذ کا مذاق اڑانے کے مترادف ہو گا۔"
کرسٹو فر رے نے کہا کہ بغاوت کا یہ واقعہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں تھا۔ ان کے بقول ایف بی آئی نے 2019 میں نسل کی بنیاد پر ہونے والی پر تشدد انتہا پسندی کے خطرے کو اسلامک اسٹیٹ یعنی داعش اور اندرونی دہشت گردی کے خطرات کی سطح پر خطرہ قرار دیا تھا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکہ میں اندرونی دہشت گردی کی تفتیش کے دوران وہ کسی خاص نظریے پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔
یاد رہے کہ چھ جنوری کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مبینہ حامیوں نے اس وقت کیپیٹل ہل پر حملہ کیا تھا جب کانگریس کے اراکین ایک اجلاس میں گزشتہ سال تین نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں جو بائیڈن کی فتح کی توثیق کر رہے تھے۔
سماعت میں امریکی سینیٹروں نے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر سے اس واقعے اور اندرونی دہشت گردی کے مسائل پر سوالات کیے۔
سماعت کے دوران ایف بی آئی کے ڈائریکٹر نے کانگریس پر حملے سے متعلق کی جانے والی اس تنقید کے جواب میں اپنے ادارے کا دفاع کیا، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ ایف بی آئی نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے اس حملے سے پہلے مناسب انداز میں خبردار نہیں کیا تھا اور وہ اس واقعے کے ہونے سے پہلے اس کی علامات کو صحیح طور پر نہ سمجھ پائے تھے۔
چھ جنوری کے واقعے کے بعد کرسٹوفر رے کی یہ کانگریس میں پہلی سماعت تھی۔
ایف بی آئی کے ڈائریکٹر نے دائیں بازو کے کچھ مبصرین کی جانب سے پیدا کیے گئے اس تاثر کو رد کیا کہ اس حملے میں بائیں بازو کے خیالات کے حامی، سابق صدر ٹرمپ کے حامیوں کا روپ دھار کر شریک ہوئے تھے۔
امریکی جمہوریت کی علامت کانگریس پر اس حملے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک پولیس افسر بھی شامل تھا۔
اس پرتشدد واقعے میں 100 سے زائد افسران زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد امریکی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 270 افراد کو گرفتار کیا تھا جن میں سے 33 حکومت مخالف عسکریت پسند اور دائیں بازو کے گروپوں کے ارکان ہیں۔