امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن اتھارٹی (ایف ڈی اے) نے ذہنی بیماری 'اے ڈی ایچ ڈی' میں مبتلا بچوں کے لیے لگ بھگ 10 سال بعد نئی دوا کی منظوری دے دی ہے۔
ایف ڈی اے نے جمعے کو ذہنی بیماری 'اے ڈی ایچ ڈی' میں مبتلا 6 سے 17 برس کی عمر کے بچوں کے لیے نئی دوا 'کیل بری' کی منظوری دی ہے جو کیپسول کی صورت میں دستیاب ہو گی اور اس کی روزانہ ایک خوراک لی جا سکتی ہے۔
جمعے کو منظور ہونے والی دوائی 'کیل بری' کو امریکی کمپنی سپرنس فارماسوٹیکلز کی تاہم کمپنی نے دوا کی قیمت تاحال متعین نہیں کی۔
بچوں کی ذہنی بیماری اے ڈی ایچ ڈی ہے کیا؟
امریکہ میں صحتِ عامہ کے نگراں ادارے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول (سی ڈی سی) کے مطابق 'اے ڈی ایچ ڈی' ایک ایسی ذہنی بیماری ہے جس میں بچے کسی کام پر فوکس نہیں کر پاتے، ان کے رویے میں غیر متوقع تبدیلیاں آتی ہیں جب کہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر وہ ایسی حرکات کر بیٹھتے ہیں جو اُن کے لیے کسی حادثے کا سبب بھی بن سکتی ہیں۔
سی ڈی سی کے مطابق عام طور پر چھ سے 17 سال کے بچے اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ تاہم اس سے زیادہ عمر کے افراد میں بھی یہ بیماری دیکھی گئی ہے۔
اے ڈی ایچ ڈی (اٹینشن ڈیفیسیٹ ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر) میں مبتلا بچوں میں ضرورت سے زیادہ بولنے، چیزیں رکھ کر بھولنے سمیت کھو دینے، لاپرواہی میں غلطیاں کرنے اور غیر ضروری خطرہ موہ لینے جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں جب کہ اس بیماری کا علاج بیہیویئر تھراپی (نفسیاتی طریقہ علاج) اور ادویات کے ذریعے ہی کیا جاتا ہے۔
اس دماغی بیماری میں مبتلا بچوں کو دوستوں کے ساتھ، گھر اور اسکول میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چار سے پانچ سال کی درمیان کے بچوں کو اگر اس ذہنی بیماری کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کے لیے انہیں سب سے پہلے بیہیویئر تھراپی (نفسیاتی طریقہ علاج) کی ہی تجویز دی جاتی ہے جب کہ صحت مند طرزِ زندگی بھی اس بیماری میں مبتلا بچوں کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے۔
بچوں کی ذہنی بیماری 'اے ڈی ایچ ڈی' کے علاج کے لیے استعمال کی جانے والی دیگر ادویات کے برعکس حال ہی میں منظور ہونے والی دوا 'کیل بری' بنانے والوں کا دعویٰ ہے کہ دوا میں 'اسٹیمیولیٹنگ' (انسان کو متحرک رکھنے والی دوائی) شامل نہیں ہے۔
اس سے قبل ذہنی بیماری 'اے ڈی ایچ ڈی' کے علاج میں یہی مسئلہ رہا ہے کہ علاج کے لیے تجویز کی جانے والی تقریباً سبھی ادویات میں 'اسٹیمیولیٹنگ' (انسان کو متحرک رکھنے والی دوائی) شامل ہوتی ہے۔
امریکہ کے جانز ہاپکنز اسکول آف میڈیسن میں شعبہ نفسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ڈیوڈ ڈبلیو گڈ مین کا کہنا ہے کہ 'کیلی بری' دوا ان بچوں کے لیے بھی ایک آپشن ہے جو ادویات کی لت اور دماغ کو متحرک رکھنے کے لیے 'اسٹیمیولیٹنگ' دواؤں کے مضر اثرات اور اضافی تھراپی کی ضرورت محسوس کرنے جیسے مسائل سے دوچار ہیں۔
یاد رہے کہ ضرورت سے زیادہ 'اسٹیمیولیٹنگ' دواؤں کے استعمال سے انسان کو بے چینی، دباؤ، جسم کے درجۂ حرارت میں اضافے جیسے اثرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس دوا کے لیے امریکی دوا ساز کمپنی 'سپرنس' کی تحقیق میں چھ سے 11 سال کی عمر کے 477 بچے شامل تھے جنہیں چھ ہفتوں تک دوا دی گئی جس کہ بعد یہ دیکھا گیا ان بچوں میں توجہ مرکوز نہ کرنے اور ضرورت سے زیادہ متحرک ہونے والی علامات میں 50 فی صد کمی دیکھی گئی۔
'کیلی بری' جسے 'ویلوکسازین' بھی کہا جاتا ہے کے استعمال سے تحقیق میں شامل چند رضاکاروں میں ظاہر ہونے والی علامات کو کم کرنے میں مدد ملی جن میں میں نیند کی کمی، سر درد اور تھکاوٹ شامل ہیں۔
واضح رہے کہ ویلو کسازین کو کئی دہائیوں سے یورپ میں ڈپریشن کے خاتمے کے لیے دوا کے طور پر فروخت کیا گیا تھا لیکن 'ایف ڈی اے' نے اسے منظور نہیں کیا تھا۔