حماس کے ساتھ سات اکتوبر کے حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیل کی لبنان کے ساتھ واقع سرحد کے قریبی علاقے ڈیفنا سے انخلا کرنے والے اسرائیلی شہری اب اس خدشے کے تحت اپنے گھروں کو واپس جانے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ کہیں حماس کے حامی، حزب اللہ عسکریت پسند سرحد عبور کر کے ان کے علاقے میں داخل نہ ہوجائیں اور انہیں یرغمال نہ بنا لیں۔
اسرائیل۔ حماس جنگ کے پہلے دنوں میں اسرائیلی حکام نے لبنان کے ساتھ واقع اپنے شمالی سرحدی علاقوں کے لوگوں کو وہاں سے نکال لیا تھا ۔
ایسے ہی ایک علاقے ڈیفنا کے سینکڑوں لوگوں کو لگ بھگ ساٹھ کلو میٹر جنوب میں بحیرہ گلیلی کے ساحل پر واقع ایک صحت افزا دیہات ہاؤن میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ جو اب گھر واپس جانے سے انکار کر رہے ہیں ۔
اس انکار کی وجہ یہ ہے کہ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ اب شمال میں لبنان کی سرحد تک پھیل گئی ہے ،جہاں اسرائیلی فوج فلسطینی عسکریت پسند گروپ کے لبنانی اتحادی ، ایران کی پشت پناہی کی حامل حزب اللہ کے ساتھ باقاعدگی سے سرحد پارفائرنگ کا تبادلہ کر رہی ہے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق شمالی اسرائیل میں بڑھتے ہوئے تشدد میں نو فوجی اور کم از کم چار شہری ہلاک ہو چکے ہیں ۔
ان حالات میں لبنان کی سرحد کے قریب واقع اسرائیلی علاقے ڈیفینا سے انخلا کرنے والی کبوٹز کمیونٹی کے سینکڑوں مکین اس ڈر سے اپنے گھروں کو واپس جانے کو تیار نہیں ہیں کہ کہیں حزب اللہ کے جنگجوؤں نے سرحد عبو ر کر کے اسرائیل میں در اندازی کا کوئی منصوبہ تیار نہ کر لیا ہو ۔
یہ خدشات منگل کو جنوبی بیروت میں حزب اللہ کے مضبوط گڑھ میں اس حملے کے بعد بڑھ گئے جس میں حماس کے نائب لیڈر صالح العاروری ہلاک ہو گئے ۔
حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ نے خبردار کیا ہے کہ اس قتل کا ،جسے بڑے پیمانے پر اسرائیل سے منسوب کیا جا رہا ہے بدلہ لیا جائے گا ۔
38 سالہ امیت نے کہا کہ انہیں عسکریت پسند گروپ کی جانب سے انتقامی کارروائی کا خوف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ , ”حزب اللہ حماس سے زیادہ مضبوط ہے اور اس کے نمٹنے کے لیے فوجی کارروائی کی ضرورت ہے ۔ “
اس شیعہ عسکریت پسند گروپ کے بارے میں خیال ہے کہ اس نے حالیہ عشروں میں ہتھیاروں کا ایک خاصا بڑا ذخیرہ اکٹھا کر لیا ہے ۔
حزب اللہ کے ساتھ اسرائیل کی آخری جنگ 2006 میں ہوئی تھی جب لبنان میں بیشتر عام شہریوں پر مشتمل 1200 سے زیادہ لوگ اور بیشتر فوجیوں پر مشتمل اسرائیل کے 160 لوگ ہلاک ہوئے تھے ۔
حزب اللہ جو سرحد کے ساتھ اسرائیلی فوجیوں کے خلاف روزانہ کارروائیاں کرتی ہے ، کہتی ہے کہ وہ غزہ کے حماس حکمرانوں کی حمایت میں یہ در اندازی کر رہی ہے ۔
45 سالہ انگلش ٹیچر لائن بلوم بھی مستقبل قریب میں اس وقت تک اپنی اہلیہ اور تین بچوں کےساتھ ڈیفینا واپس نہیں جانا چاہتے جب تک حزب اللہ کے ساتھ مسئلہ حل نہیں ہو جاتا۔
انہوں نے کہا، “ہم خوفزدہ ہیں۔ سات اکتوبر کو جو کچھ جنوب میں ہوا اس سے ہمیں یہ سمجھ آگئی ہے ۔ ہم شمال میں اپنے گھر واپس جانے کے بعد ویسی ہی صورتحال کا سامنا نہیں کر سکتے ۔”
اے ایف پی نے ایک میڈیا ٹور کے تحت اسرائیلی فوج کی نگرانی میں ڈیفینا کے علاقے کا دور ہ کیا جہا ں سڑکیں زیادہ تر ویران تھیں ۔ وہاں زندگی کے واحد نشان آوارہ بلیاں اور گشت کرتے ہوئے فوجی تھے ۔
ڈیفنا کے ترجمان اریک یاکوی نے کہا کہ اس کے مکینوں کی واپسی کی واحد صور ت سرحدی علاقے کی سیفٹی ہے۔
ایک 76 سالہ اسرائیلی خاتون ایٹسی ریو نے جن کے ساتھ ان کے 81 سالہ شوہر اوزی موجود تھے کہا ، کہ،” ہاں ہم خوفزدہ ہیں “
لیکن انہوں نے کہا کہ,” اگر صورتحال تبدیل نہیں ہوتی تو بھی وہ جلد از جلد ڈیفینا واپس جانے کا ارادہ رکھتی ہیں ۔ کبوتز ہمارا حصہ ہے۔”
اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کی بنیاد پر اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے میں 1140 لوگ ہلاک ہوئے تھے اور حماس 250 لوگوں کو یرغمال بنا کر غزہ لے گئی تھی ۔ان میں سے 132 ابھی تک ان کے پاس موجود ہیں جن میں کم از کم 24 کے بارے میں خیال ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
حماس کو تباہ کرنے کے دعوے کے ساتھ اسرائیل نے غزہ پر اندھا دھند بمباری اور زمینی حملوں سےاسے کھنڈر بنا دیا ہے۔ حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق ان حملوں میں کم از کم 22600 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سے اکثریت خواتین اور بچوں پرمشتمل تھی
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم