امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں گزشتہ دنوں انٹرنیشنل فیسٹول آف لینگویج اینڈ کلچر نامی سالانہ میلے کا انعقاد ہوا۔ اس میلے کا آغاز سنہ 2003 میں ترکی سے ہوا تھا جس میں ہر سال دنیا بھر سے سیکڑوں نوجوانوں کو شرکت کا موقع دیا جاتا ہے۔
دنیا کے 140 سے زائد ممالک کے ٹیلنٹ کو ہر سال اپنے پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے والے اس میلے کا مقصد دنیا میں امن اور محبت کو فروغ دینا ہے۔
اس میلے کی بنیاد یہ خیال ہے کہ دنیا کے مختلف حصوں کی زبانوں اور ثقافتوں کا مظاہرہ نہ صرف انہیں پیش کرنے والوں بلکہ انہیں دیکھنے والوں اور فن کاروں کے درمیان بھی فاصلوں کو کم کرسکتا ہے۔ ہر سال اس میلے کی میزبانی دنیا کے مختلف ممالک کرتے ہیں۔ گزشتہ برس اسے دنیا کے 20 ممالک میں پیش کیا گیا تھا جب کہ رواں برس میزبانوں کی فہرست میں امریکہ بھی شامل تھا۔
میلے میں شریک ٹیکساس سے منتخب رکنِ کانگریس رینڈٰی ویبر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ تقریب مختلف ثقافتوں کو اکٹھا کرنے کا ایک اچھا موقع ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تقریب ان لوگوں کے جذبے کا بہترین اظہار ہے جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جب دنیا مل کر چلتی ہے تو امن قائم ہوتا ہے۔
تقریب کی میزبانی کیوبن نژاد مشہور امریکی فن کار اور ہدایت کار اینڈ ی گارشیا نے کی۔
رواں سال میلے کا عنوان Beautiful Colors of the World یعنی "دنیا کے خوب صورت رنگ" تھا جو اس میلے میں ہر جانب بکھرے نظر آئے۔
میلے میں اپنی ثقافتوں کے تمام تر رنگینیوں کے ساتھ رومانیہ، قازقستان، ترکی، روس، برازیل، جنوبی افریقہ، موزمبیق، بھارت اور مالدووا سمیت 127 ملکوں کے طائفے شریک تھے۔
میلے کے دوران 126 نوجوانوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ میلے میں پیش کی جانے والی لوک گیتوں اور تاریخی کہانیوں پر مشتمل پرفارمینس نے شائقین کی خوب داد وصول کی۔
میلے میں شریک روس کے ایک طالب علم نے 130 برس قبل لکھا گیا گیت پیش کیا۔ مصر کی نمائندگی کرنے والے ایک نوجوان کی پرفارمنس بھی قابل دید تھی۔
حاضرین نے ترکی، قازقستان, موزمبیق اور برازیل کے ثقافتی رقص کو بھی خوب سراہا جب کہ فلپائن، البانیہ اور امریکہ کے نوجوانوں نے مل کر پر فارم کیا۔
میلے میں شریک نوجوان فن کار مختلف زبانیں بولتے ہیں، مختلف مذاہب کے ماننے والے ہیں، ان کے ملک ایک دوسرے سے دور، دور ہیں لیکن پھر بھی وہ اپنی اپنی زبانوں اور ثقافتوں کے اظہار کے لیے ایک جگہ اکٹھے تھے۔
اس تقریب میں حصہ لینے والے نوجوانوں کا کہنا تھا کہ انہیں فیسٹول کے دوران ایسے لوگوں سے بھی ملنے کا موقع ملا جن کے ملکوں کے بارے میں اس سے قبل وہ جانتے بھی نہ تھے۔
اس میلے کو دیکھنے امریکہ کے مختلف حصوں سے تارکین وطن بھی بڑی تعداد میں آئے۔ تقریباً تین ہزار کے مجمع میں ہر رنگ اور نسل کے لوگ نظر آئے۔ ان میں سے بہت سوں کے لیے یہ ایک انوکھا اور منفرد تجربہ تھا۔
اس میلے میں آئے بیشتر لوگ ایک دوسرے کی زبان بول سکتے تھے اور نہ سمجھ سکتے تھے۔ لیکن انہیں آپس میں جوڑا موسیقی اور ثقافت کے رنگوں نے ۔۔یہ وہ عالمی زبان ہے جسے لفظوں کی ضرورت ہی نہیں۔