رسائی کے لنکس

افغانستان: بغلان کے علاقے میں لڑائی


روئیٹرز نے پولیس ترجمان ذبیح اللہ شجاع کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان نے کابل کے شمال میں واقع بغلان صوبے کے دارالحکومت پلِ خُمری کے قریب رات کو ہونے والی جھڑپوں میں دو سرکاری چوکیوں پر قبضہ کر لیا۔

حکام نے بدھ کو کہا ہے کہ افغان فورسز اور طالبان شدت پسندوں کے درمیان ایک شمالی علاقے جنگ چھڑ گئی ہے جہاں اس سال کے اوائل میں ہونے والی لڑائی میں کابل کو بجلی فراہم کرنے والی تاریں شدید متاثر ہوئی تھیں۔

خبررساں ادارے ’روئیٹرز‘ کے مطابق شدت پسندوں نے جنوری میں بغلان صوبے میں ایک جگہ بجلی کی تاروں کا نظام تباہ کر دیا تھا جس کے باعث لگ بھگ ایک ماہ تک دارالحکومت میں بجلی کی فراہمی میں خلل رہا۔

2014 میں بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد مختلف جگہوں پر طالبان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔

روئیٹرز نے پولیس ترجمان ذبیح اللہ شجاع کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان نے کابل کے شمال میں واقع بغلان صوبے کے دارالحکومت پلِ خُمری کے قریب رات کو ہونے والی جھڑپوں میں دو سرکاری چوکیوں پر قبضہ کر لیا۔

اس کارروائی میں تیرہ طالبان، ایک شہری اور ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوا۔ طالبان ترجمان سے اس سلسلے میں فوری طور پر رابطہ نہیں کیا جا سکا۔

جنوری میں وسطی ایشیا سے بجلی لانے والے گرڈ پر ہونے والے حملوں کے بعد سکیورٹی فورسز کو علاقہ محفوظ بنانے اور بجلی کی تاریں مرمت کروانے میں کئی ہفتے لگے۔

وہاں کے ایک رہائشی محمد حسین کے مطابق طالبان باغی اب بھی علاقے میں کھلے عام پھر رہے ہیں، سکول بند ہیں اور لوگ اپنے گھروں سے نکلنے سے ڈرتے ہیں۔

بغلان کے گورنر عبدالستار باریز نے کہا ہے کہ فوج نے علاقے میں طالبان کی پیش قدمی روکنے کے لیے ایک آپریشن شروع کیا ہے۔

دریں اثنا ایک فوجی ترجمان کے مطابق امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے اس سال افغانستان میں انسداد دہشت گردی کی لگ بھگ سو کارروائیاں کی ہیں جن کا ہدف داعش کے شدت پسند تھے اور جن سے ان کی تعداد میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔

امریکی فوج کے جنرل چارلس کلیولینڈ نے کابل میں کہا کہ انسداد دہشت کی بیشتر کارروائیاں پاکستان کی سرحد پر واقع مشرقی صوبے ننگر ہار میں کی گئیں۔

امریکی فوج کے اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے جنرل کلیولینڈ نے کہا کہ 2015 کے اوائل سے ننگرہار کے چھ سے آٹھ اضلاع میں داعش کے لگ بھگ تین ہزار جنگجو سرگرم ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ان کی تعداد کم ہو کر 1,000 رہ گئی ہے اور داعش کی سرگرمیوں کو ایک ضلعے کے اندر محدود کر دیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG