|
آپ نے لیبارٹریز میں تیار کیے گئے گوشت کی خبریں تو سنی ہوں گی۔ اسی طرح تجربہ گاہوں میں کم سے کم قدرتی وسائل خرچ کیے بغیر خوراک تیار کرنے کے کئی تجربات جاری ہیں۔ لیکن فن لینڈ کی ایک فیکٹری اس شعبے میں ایک انوکھے تجربے میں ہوا سے خوراک تیار کر رہی ہے۔
یہاں سائنس دان یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہوا میں پائے جانے والے خورد بینی اجسام، جرثومے یا مائیکروب اور بجلی کے ذریعے روایتی زرعی طریقوں کے بغیر اہم ترین غذائی جز پروٹین حاصل کیا جا سکتا ہے۔
جسم کو درکار توانائی کے لیے پروٹین اہم غذائی جز ہے اور گوشت اور ڈیری مصنوعات اسے حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
گوشت اور دودھ کی پیداوار کے لیے ہونے والی گلہ بانی کی صںعت کو عالمی درجۂ حرارت میں اضافے کی بنیادی وجوہ میں شمار کیا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سیلولر ایگری کلچر یا خلیوں کے ذریعے خوراک یا غذائی اجزا تیار کرنے کو مویشیوں سے خوراک حاصل کرنے کے متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
لیبارٹری میں خلیات کی مدد سے انڈے، گوشت اور دودھ کی تیاری کے کامیاب تجربات ہو چکے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ اسے غیر فطری، بہت زیادہ پراسیسڈ ہونے، توانائی کے خرچ اور لاگت کی وجہ سے زراعت کا نعم البدل نہیں سمجھتے۔
لیکن فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی میں شروع ہونے والی سولر فوڈ کمپنی ہوا میں پائے جانے والے مائیکروب اور بجلی کی مدد سے پروٹین تیار کر رہی ہے۔
یہ کمپنی مائیکروب اور کاربن ڈائی آکسائیڈ، ہائیڈروجن اور بعض معدنیات اور ماحول دوست توانائی کے ذرائع سے ہونے والی بجلی کے ذریعے پروٹین سے بھرپور سفوف یا پاؤڈر تیار کرتی ہے جسے دودھ اور انڈوں کے متبادل کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس سفوف کی تیاری کے لیے مائیکروب اور دیگر اجزا کو ایک فرمینٹر ٹینک میں ڈالا جاتا ہے اور انہیں خمیر کیا جاتا ہے جس کے بعد زرد پاؤڈر حاصل کیا جاتا ہے۔
سولر فوڈز کے چیف ایگزیکٹو پاسی وینیکا کے مطابق وہ دنیا میں سب سے پائیدار طریقے سے پروٹین تیار کر رہے ہیں۔
یہ کمپنی وینیکا اور جوہا پیکا پتکانین نے 2017 میں قائم کی تھی اور اس کا دعویٰ ہے کہ یہ ’ہوا سے خوراک بنانے والی اپنی نوعیت کی پہلی فیکٹری ہے۔‘‘
سولر فوڈز میں تیار ہونے والے پروٹین کو ’سولین‘ کا نام دیا گیا ہے۔
سال 2021 میں ہونے والی ایک سائنسی تحقیق کے مطابق سولر فوڈز کمپنی میں تیار ہونے والے ایک کلو سولین کی تیاری میں جو گرین ہاؤس گیسز خارج ہوتی ہیں وہ اتنی ہی مقدار میں پروٹین کے لیے استعمال ہونے والے گوشت کے حصول میں ہونے والے گرین ہاؤس گسیز کے اخراج کے مقابلے میں 130 گنا کم ہے۔
کمپنی کے پلانٹ میں اس وقت 40 ملازمین ہیں جنھیں اس کے مالک ’مستقبل کا کسان‘ قرار دیتے ہیں۔
سولر فوڈ ابھی چھوٹے پیمانے پر کام کر رہی ہے۔ یورپی یونین سے منظوری کے بعد اس میں مزید سرمایہ کاری آنے کی توقع ہے۔
یہاں تیار ہونے والی پروٹین کو سنگا پور میں فروخت کی منظوری مل چکی ہے جہاں بعض ریستوران اس سے آئس کریم تیار کر رہے ہیں تاہم اسے امریکہ اور یورپی یونین میں فروخت کے لیے منظوری نہیں ملی ہے۔
اس خبر کی معلومات ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔
فورم