سعودی عرب کے شہر جدہ میں واقع تیل کے ایک گودام میں ایک ایسے موقع پر آگ بھڑک اٹھی جب کہ وہاں معروف عالمی کار ریس "فارمولا ون" ہونے والی ہے۔
باغی حوثیوں کے ایک گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ آگ ان کے حملے کے نتیجے میں لگی ہے۔
تاحال سعودی عرب یا سعودی انتظام کی آئل کمپنی آرامکو کی جانب سے باضابطہ طور پر آتش زدگی کی تصدیق نہیں کی گئی۔ تاہم، ایسوسی ایٹڈپریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ وہی آئل ڈپو ہے جہاں حوثیوں نے چند روز پہلے بھی حملہ کیا تھا۔
ان دنوں فارمولا ون ریس کے لیے جدہ میں مشقیں ہو رہی ہیں اور کئی غیر ملکی صحافی اس کی کوریج کے لیے وہاں مقیم ہیں۔ اے پی کے ایک رپورٹر نے بتایا ہے کہ جمعے کی سہ پہر شہر سے تقریباً سات میل کے فاصلے پر واقع ایک بڑے آئل پلانٹ کے گوداموں سے دھواں اٹھتے ہوئے دیکھا گیا ۔
فوری طور پر آگ لگنے کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی اور حکام نے بھی اس بارے میں کچھ بتانے سے احتراز کیا۔
تاہم ریس کے منتظمین کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم حکام کی جانب سے معلومات کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اصل میں ہوا کیا ہے۔
تاہم، یمن کے حوثی باغیوں کے سیٹلائٹ چینل المسرہ کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ باغیوں نے جدہ میں آرامکو آئل ڈپو ، ریاض اور کئی دوسرے مقامات پر حملے کیے ہیں، لیکن ان حملوں کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی وژن نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ باغیوں نے الظہران میں پانی کی ایک ٹینکی کو نشانہ بنایا اور وہاں کچھ گاڑیوں اور املاک کو بھی نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ یمن کے قریب ایک سرحدی علاقے میں بجلی کے ایک گرڈ اسٹیشن کو بھی ہدف بنایا گیا ہے۔
جدہ کے اس آئل ڈپو میں پیٹرول، ڈیزل اور طیاروں کے ایندھن کو ذخیرہ کیا جاتا ہے جو علاقے کی زیادہ تر ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ سن 2020 میں ہوثیوں نے اس تنصیب پر کروز میزائل سے پانچ لاکھ بیرل کی گنجائش رکھنے والے ڈیزل کے ایک ٹینک پر حملہ کیا تھا جس کی مرمت پر آرامکو کو 15 لاکھ ڈالر سے زیادہ صرف کرنے پڑے تھے۔
سعودی عرب کی قیادت میں ایک اتحاد 2015 سے یمن کے ان باغی حوثیوں کے خلاف لڑ رہا ہے جنہوں نے ستمبر 2014 میں بغاوت کرنے کے بعد دیمن کے صدرمقام صنعا پر قبضہ کر لیا تھا اور عالمی طور پر تسلیم شدہ صدر عبدالرب منصور ہادی کو اپنی جان بچانے کے لیے وہاں سے نکلنا پڑا تھا۔
یمن کے باغی حوثیوں کو مبینہ طور پر ایران کی تائید و سرپرستی حاصل ہے۔ سعودی عرب کی قیادت کا اتحاد باغیوں کے خلاف اس لیے جنگ جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا راستہ روکا جا سکے۔
سعودی عرب کو بین الاقوامی سطح پر اس تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ اس کے فضائی حملوں سے یمن میں بڑی تعداد میں عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں اور املاک کو بھاری نقصانات پہنچ چکے ہیں۔
اس خانہ جنگی کی وجہ سے یمن میں ایک بڑا انسانی بحران جنم لے چکا ہے اور وہاں آبادی کی اکثریت کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
جواباً حوثی بھی سعودی اور اتحادیوں کی تنصیبات پر ڈرونز، میزائلوں اور مارٹر گولوں سے حملے کرتے رہتے ہیں۔
نشانہ بننے والا تیل کا بڑا پلانٹ جدہ میں انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے قریب واقع ہے۔ سعودی مملکت کا یہ شہر بین الاقوامی آمد ورفت کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ مکہ سے قریب ہونے کے ناطے اس شہر کے ایئرپورٹ پردنیا بھر سے مسلم عازمین کی آمد سال بھر جاری رہتی ہے۔ اسی طرح جدہ کی بندرگاہ کو بھی خاصی اہمیت حاصل ہے۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا)