امریکی صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس کے لیے انتخاب لڑتےہوئے ووٹرز کو بتایا تھا کہ ان کی صدارت اگلی نسل کے لیے ایک پل ثابت ہو گی ۔ اپنے منصب پر اپنے پہلے دو برسوں میں انہوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ یہ ا یک بہت پر عزم منصوبہ ہے ۔
اب جب صدر بائیڈن اپنی پہلی مدت صدارت کے نصف حصےکے قریب پہنچ رہے ہیں ، وہ آب و ہوا کی تبدیلی ، ملکی مصنوعات سازی اور کووڈ 19 کی وبا پر اپنی اب تک کی کامیابیوں کو اجاگر کر رہے ہیں اگرچہ یہ سب کامیابیاں کیپیٹل ہل پر قدرے کم اکثریت اور عوام کی طرف سے قدرے کم پذیرائی کے ساتھ حاصل ہوئیں ۔
بائیڈن کی قانون سازی کی کامیابیوں کا دائرہ امریکی زندگی کے تقریباً ہر پہلو تک پھیلا ہوا ہے اگرچہ کچھ معاملات میں ان کے اثرات کو محسوس ہونے میں برسوں لگ سکتے ہیں ، مگر یوکرین کے دفاع کی حمایت اور چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف جمہوریتوں کے ایک عالمی اتحاد کو منظم کرنے کی ان کی کوششوں کی گونج دیر تک سنائی دیتی رہے گی۔
انہوں نے وسط مدتی انتخابات میں ووٹرز کو مہنگائی اور معیشت کے بارے میں فوری خدشات کے باوجود طویل مدتی فوائد کے اپنے وژن پر قائم رہنے پر آمادہ کر کے ایک تاریخی کامیابی حاصل کی ۔
اب جب کہ 80 سالہ صدر موسم بہار کے اوائل میں اپنی ریکارڈ طویل عمر کے باوجود دوبارہ انتخاب میں حصہ لینے کے اعلان پر غور کررہے ہیں، ا ن کے لیے آگے کا راستہ بہت مشکل دکھائی دیتا ہے ۔ 3 جنوری کو ریپبلکن ایوان کا کنٹرول سنبھال لیں گے، سخت افراط زر کے دوران کساد بازاری کا خطرہ منڈلا رہا ہے، اور یوکرین کے لیے امریکی حمایت برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا کیونکہ تنازع ایک سال کے قریب پہنچ جائے گا۔
اگلے دو سال 2024 کی صدارتی سیاست کی وجہ سے بھی پیچیدہ شکل اختیار کر لیں گے اور ان کی کامیابیاں خواہ کتنی ہی کیوں نہ ہوں۔ ا ن کی کارکردگی سے متعلق مقبولیت کی شرح بدستور پریشان کن ہے اور ووٹرز قیادت سے متعلق ان کی اہلیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کر چکے ہیں۔
کچھ ممتاز ڈیمو کریٹس اس بارے میں پوچھے جانے والے سوال پر ان کے دوبارہ انتخاب کی توثیق سے کھلم کھلا انکار کر چکے ہیں اور ان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ 2024 میں نوجوانوں کے لیے راستہ چھوڑ دیں ۔
بائیڈ ن کے مشیر اور اتحادی اس تنقید کو مسترد کر رہے ہیں ۔ وائٹ ہاؤس کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر کیٹ بیڈنگ فیلڈ کا کہنا ہے کہ بائیڈن اپنے تجربے کی بنیاد پر قیادت کر رہے ہیں اور اگلی نسل ان کے ساتھ ساتھ قیادت میں شریک ہے ۔
انہوں نے بائیڈن کی نسبتاً نوجوان کابینہ اور ملک بھر میں ڈیمو کریٹک امیدواروں کا حوالہ دیا جنہوں نے صدارتی ایجنڈے کے تحت 2022 کے مڈٹرم انتخابات میں کامیابی حاصل کی ۔
بائیڈن کے پولسٹر جون انزالون کا کہنا ہے کہ صدر یہ ثبوت پیش کر رہے ہیں کہ وہ نئی نسل کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ نے دیکھا کہ نوجوان ووٹرز نے کس طرح 2022 میں ووٹ دیے اور آپ 2024 میں بھی ایسا ہی دیکھیں گے ۔
تاہم 2022 کے مڈ ٹرم انتخابات میں اگرچہ نوجوان ووٹرز ڈیمو کریٹس کی طرف متوجہ ہوئے لیکن ان کا جوش و جذبہ0 202 کے مقابلے میں کم ہو گیا تھا جب ڈونلڈ ٹرمپ کی ابتری کی شکار صدارت کے لیے نا پسندیدگی کی وجہ سے وہ زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے تھے۔ یہ حقیقت بائیڈن کے لیے امکانی طور پر ایک انتباہی علامت ہے، خاص طور پر اگر ری پبلکنز کسی نئے چہرے کو نامزد کر دیتے ہیں تو۔
بائیڈن اپنے دور صدارت میں مختلف نشیب و فراز سے گزر ے ہیں۔ سب سے مشکل مرحلہ گزشتہ موسم گرما میں افغانستان سے امریکی فورسز کا افرا تفری میں ہونے والاانخلا تھا جس کے نتیجے میں ان کی مقبولیت کی شرح گر گئی تھی ۔
لیکن 2022 میں مڈ ٹرم انتخابات کے قریب بائیڈن نے گن وائلنس اور ملک کی ہائی ٹیک مصنوعات سازی کو دوبارہ فروغ دینے کے لیے دو جماعتی کارروائی اور آب وہوا کی تبدیلی کے مقابلے اور ادویات کی قیمتوں میں کمی پر سرمایہ کاری میں یک جماعتی قانون سازی میں کامیابی حاصل کی۔
بائیڈن کے مشیروں کا کہنا ہے کہ اگلے دو سال بائیڈن کے لیے لازمی طور پر سخت ہوں گے۔ ڈیموکریٹس کانگریس کا متفقہ کنٹرول کھوچکے ہیں اور اب جب وہ اپنے دوبارہ انتخابات کے لیے جائیں گے توان کی ترجیحات نئے اقدامات پر عمل درآمد اور امریکیوں کو ان کے اثرات کی یقین دہانی پر منتقل ہو جائیں گی ۔
وہ کہتے ہیں کہ بائیڈن دو طرفہ تعاون کے شعبوں کی تلاش جاری رکھیں گے، لیکن ان کی سب سے بڑی ترجیحات ، مثلاً حملے کی طرز کے ہتھیاروں پر پابندی، اور اسقاط حمل کے ملک گیر حق کی ضابطہ سازی پر تعاون کی توقع بہت کم ہے ۔
اس کی بجائے وہ مقبول پروگراموں کو اجاگر کرنے اور ان پر عمل درآمد کے طریقے تلاش کرنےکی کوشش کریں گے، مثلاً میڈی کئیرلینے والوں کے لیے انسولین کے اخراجات پر ماہانہ 35 ڈالر کی حد جو کہ جنوری میں نافذ ہو گی جب کہ کابینہ کی ایجنسیاں نئے اخراجات کے لیے اربوں ڈالر کی تلاش اور استعمال پر کام کریں گی۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں۔)