لیبیا کے حکام نے کہا ہے کہ دارالحکومت طرابلس کے ایک بڑے ہوٹل کے باہر منگل کو ہونے والے کار بم دھماکے میں پانچ غیر ملکی شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں جس کے بعد ہلاکتوں کی تعداد آٹھ ہوگئی ہے۔
اس سے قبل طرابلس کے سکیورٹی عہدیداروں نے حملے میں ہوٹل کے صرف تین محافظوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
حکام کا کہنا ہے کہ کار بم دھماکے کے بعد مسلح دہشت گردوں کے ایک گروہ نے 'ہوٹل کورنتھیا' پر دھاوا بول دیا تھا اور فائرنگ کرکے ہوٹل کے عملے کے کئی افراد کو زخمی کردیا تھا۔
حملے کا نشانہ بننے والا ہوٹل دارالحکومت کا سب سے معروف اور بڑا ہوٹل ہے جو سیاست دانوں اور لیبیا میں مقیم غیر ملکیوں میں خاصا مقبول ہے۔
ایک مقامی ملیشیا کے کارندوں نے 2013ء میں اسی ہوٹل سے سابق وزیرِاعظم علی زیدان کو بھی اغوا کیا تھا جنہیں کچھ دیر یرغمال رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا تھا۔
ہوٹل سکیورٹی کے ایک ترجمان نے بتایا ہے حملے کے بعد ایک مسلح شخص کو ہوٹل کے احاطے سے گرفتار کیا گیا ہے۔ سکیورٹی فورسز نے ساحل سمندر پر واقع ہوٹل کو گھیرے میں لیا ہوا ہے اور مزید حملہ آوروں کو تلاش کیا جارہا ہے۔
حکام نے تاحال ہلاک ہونے والے غیر ملکیوں کی شہریت کی تفصیلات جاری نہیں کی ہیں۔ لیکن اطلاعات ہیں کہ مرنے والوں میں کم از کم ایک امریکی اور ایک فرانسیسی شہری بھی شامل ہیں۔
لیبیا کی حکومت کے مطابق تاحال یہ واضح نہیں ہوسکا کہ حملے میں کون ملوث ہے۔ لیکن 'دولتِ اسلامیہ کی طرابلس شاخ' نامی ایک غیر معروف تنظیم نے انٹرنیٹ پر جاری کیے جانے والے بیان میں حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر کی جانے والی بعض پوسٹ میں ہوٹل پر حملے کو 2013ء میں امریکی فورسز کے ہاتھوں ابو انس اللبی نامی مبینہ دہشت گرد کی گرفتاری کا بدلہ قرار دیا گیا ہے۔
لیبیائی شہری اللبی پر 1998ء میں کیبیا اور تنزانیہ کے امریکی سفارت خانوں پر ہونے والے بم حملوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ ان حملوں کی ذمہ داری 'القاعدہ' نے قبول کی تھی۔
اللبی جنوری کے آغاز میں امریکہ کی ایک جیل میں انتقال کرگیا تھا۔
یاد رہے کہ کرنل معمر قدافی کے کئی دہائیوں تک جاری رہنے والے آمرانہ اقتدار کے چار سال قبل خاتمے کے بعد سے لیبیا بدامنی کا شکار ہے اور وہاں دو متحارب حکومتیں اور پارلیمان اپنے آپ کو قانونی ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
ملک کے بیشتر علاقوں، شہروں اور قصبوں پر مقامی جنگجو ملیشیائیں، قبائلی لشکر اور شدت پسند گروہ قابض ہیں جن کے مابین جھڑپیں معمول بن چکی ہیں۔
طرابلس پر 'لیبیا ڈان' نامی گروپ کا قبضہ ہے جس نے اگست میں حریف فورس کو یہاں سے باہر نکال دیا تھا۔ اس گروپ نے سابق پارلیمان کو بحال کر کے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ قومی حکومت کو دارالحکومت سے بے دخل کردیا ہے جس کے بعد حکومت ملک کے مشرقی علاقے سے اپنا انتظام چلا رہی ہے۔