سکھر کے نواحی علاقے زیرِ آب، شہریوں کو مشکلات
سندھ کے شہر سکھر کے نواحی علاقے سیلاب کی وجہ سے کئی کئی فٹ پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف پیر کو سکھر پہنچے جہاں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیرِاعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ان کا استقبال کیا۔
بعدازاں شہباز شریف نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور نقصانات کا جائزہ لیا۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ سندھ میں اس وقت خیموں اور مچھر دانیوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے جب کہ متاثرہ علاقوں میں امدادی کام جاری ہے اور حکومت سیلاب متاثرین کو فی کس 25 ہزار روپے دے رہی ہے۔
سندھ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبوں میں سے ایک ہے جہاں اب تک 500 زائد افراد ہلاک اور آٹھ ہزار 300 کے قریب زخمی ہوچکے ہیں۔
سندھ میں سیلاب سے کئی علاقے زیرِ آب، پانی کا سست اخراج
دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر صورتِ حال سنگین ہوتی جا رہی ہے، جہاں خیرپور ناتھ شاہ سمیت سینکڑوں دیہات زیرِ آب آ چکے ہیں۔
دادو، سیہون اور بھان سعید آباد شہروں کو بچانے کے لیے منچھر جھیل میں دو مقامات پر شگاف ڈالے گئے ہیں۔ تاہم اس دوران ضلع سیہون کی پانچ یونین کونسلز اور ان میں واقع 100 سے زائد دیہات زیرِ آب آ گئے ہیں۔
ضلع دادو کے علاقے میہڑسے رکن صوبائی اسمبلی فیاض علی بھُٹ نے اعلان کیا ہے کہ اگر محکمۂ آب پاشی کی جانب سے رنگ بند توڑا گیا، جس سے میہڑ اور اطراف کے گاؤں ڈوبنے کا خطرہ ہے، تو وہ مزاحمت کریں گے۔
علاقہ مکینوں نے شہر کو بچانے کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت رنگ بند کو مزید مضبوط کیا ہے اور اس کی دن رات حفاظت بھی کی جارہی ہے۔
سماجی رہنما معشوق برہمانی نے بتایا کہ ضلع دادو کو تین اطراف سے پانی نے گھیرا ہوا ہے۔ ایک جانب سندھ، بلوچستان سرحد پر کیرتھر پہاڑیوں پر ہونے والی بارشوں سے پانی ندی نالوں سے ہوتا ہوا منچھر جھیل میں جمع ہوتا ہے۔
دوسری جانب حمل جھیل کا پانی نارا ویلی (ایم این وی) ڈرین سے ہوتا ہوا منچھر جھیل پہنچتا ہے جب کہ ضلع کی تیسری جانب دریا ہے جہاں پانی کا بہاؤ زیادہ ہونے سے کچے کا علاقہ زیرِ آب آگیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ منچھر جھیل میں پانی، خطرے کے مقام یعنی 122 آر ایل (رڈیوسڈ لیول) سے بڑھنے پر بند میں کٹ لگایا گیا۔ جھیل میں یہ سطح سال 2010 میں آنے والے سیلاب سے بھی زیادہ بتائی جا رہی ہے۔
معشوق برہمانی کے مطابق اس کٹ کے لگانے سے مقامی آبادیوں میں غصہ پایا جاتا ہے کیوں کہ ایسا کرنے سے ضلع سہیون کی تحصیلیں جعفرآباد، بوبک، واہر اور دیگر شدید متاثر ہوئی ہیں اور سیہون ایئرپورٹ تک بھی پانی پہنچ گیا ہے لیکن اگر ایسا نہ کیا جاتا تو بڑی آبادیوں والے شہر زیرِ آب آجاتے۔موجودہ صورتِ حال میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ متاثر ہوئے ہیں اور وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقام پر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
ادھر وزیر اعلیٰ سندھ نے، جن کا آبائی گاؤں بھی اسی ضلع میں واقع ہے، منگل کو کراچی میں صحافیوں کو بتایا کہ منچھر جھیل کا پانی دریا میں تیز رفتاری سے نہیں جارہا کیوں کہ اس وقت دریا میں پانی کا بہاؤ بہت زیادہ ہے۔ کوٹری کے مقام پر چھ لاکھ کیوسک ریکارڈ کیا جا رہا ہے جو بڑا سیلابی ریلہ ہے جب کہ منچھر سے کرم پور کے مقام پر دریا میں پانی کا اخراج بمشکل 30 ہزار کیوسک ہے۔
چین سے پاکستان امداد کی آمد شروع
پاکستان کا پڑوسی ملک چین سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امداد کی فراہمی میں اسلام آباد کی معاونت کر رہا ہے۔
چین میں پاکستان کے سفیر معین الحق نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا ہے کہ چین سے پاکستان کو سیلاب زدگان کی امداد کی فراہمی جاری ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے کھانے پینے کی اشیا کی پہلی کھیپ خنجراب پاس کے ذریعے پاکستان کے علاقے گلگت بلتستان پہنچ گئی ہے۔
پاکستان کے سفیر نے چین کے صوبے سنکیانگ کی قیادت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک بروقت اور فراخ دلانہ اقدام ہے۔
اقوام متحدہ کی متاثرین کے لیے امداد، سندھ پر زیادہ توجہ
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ اس نے پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے ایک فضائی راہداری قائم کی ہے۔
ایک بیان کے مطابق بلوچستان میں تین لاکھ 36 ہزار افراد کو خوراک یا مالی معاونت فراہم کی گئی ہے۔
بیان کے مطابق سندھ میں ایک لاکھ 17 ہزار افراد کو مدد فراہم کی جا رہی ہے۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی بنیادوں پر امداد کا ادارہ دیگر شراکت داروں کے ساتھ جنوبی سندھ کے زیادہ متاثرہ علاقوں پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔