امریکہ میں رواں سال کے اواخر میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک اور ریپبلکن جماعتوں کی طرف سے باضابطہ طور پر اپنے صدارتی امیدوار نامزد کر دیے گئے ہیں جس کے بعد انتخابی مہم شروع ہو گئی ہے۔
ریبپلکن جماعت کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اپنی جماعت کی نامزدگی حاصل کرنے کی مہم کے دوران مسلمانوں سے متعلق دیے گئے سخت بیانات ناصرف امریکی مسلمانوں میں تشویش کا باعث بنے بلکہ صدر اوباما نے بھی مسلمانوں کی حب الوطنی کی تعریف کرتے ہوئے ان کے خلاف امتیازی سلوک کی مذمت کی۔
ٹرمپ نے اپنی مہم کے دوران مسلمانوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی اور ان کی مساجد کی نگرانی کی تجویز بھی دی تھی۔
ٹرمپ کے اس موقف کے خلاف گونج ڈیموکریٹک پارٹی کے قومی کنونشن میں بھی سنی گئی جہاں خاص طور پر عراق کی جنگ میں مارے جانے والے ایک امریکی مسلمان فوجی کیپٹن ہمایوں خان کے والد خضر خان کی طرف سے ٹرمپ کو یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ انھوں نے امریکہ کے لیے کوئی قربانی نہیں دی۔ خضر خان کی تقریر ناصرف ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے بلکہ انٹرنیٹ پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی اس کا خوب چرچا ہو رہا ہے۔
کنونشن میں اپنی تقریر میں خضر خان نے کہا کہ ٹرمپ کی مجوزہ امیگریشن پالیسی کی وجہ سے ان کے خاندان کو کبھی بھی امریکہ آنے کی اجازت نا ملتی۔
ٹرمپ نے امریکی نشریاتی ادارے اے بی سی نیوز کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کے خیال میں انہوں نے بہت قربانیاں دی ہیں اور ان کے بقول انہوں نے بہت سخت محنت کی اور (لوگوں کے لیے ) ہزاروں نوکریوں کا بندوبست کیا۔
ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں لگ بھگ 33 لاکھ امریکی شہری مسلمان آباد ہیں جو کہ امریکہ کی کل آبادی کا ایک معمولی حصہ ہے تاہم مبصرین کا ماننا ہے کہ وہ کئی ریاستوں میں نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
خضر خان کا تعلق پاکستان ہے اور وہ 1980ء کی دہائی میں اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ منتقل ہوگئے تھے۔
پاکستان کے ایک سینئر تجزیہ کار پروفیسر سجاد ںصیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جیسے جیسے یہ صدارتی مہم آگے بڑھے گی ٹرمپ مسلمانوں کے بارے میں اپنے بیانات میں میانہ روی اختیار کریں گے۔
" میرے خیال میں ٹرمپ صاحب اپنے موقف میں میانہ روی اخیتار کریں گے کیونکہ اس طرح کے سخت بیانات کی وجہ سے آپ کی حمایت اور ووٹ کم ہو جاتے ہیں اور میرے خیال میں (صدارتی) نامزدگی کے بعد وہ اپنے بیانات میں معتدل انداز اختیار کریں گے۔"
اگرچہ ٹرمپ کی طرف مسلمانوں سے متعلق دیے گئے بیانات پر مسلمان آبادی کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے تاہم کئی مسلمان بھی ان کی کھل کر حمایت کررہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے اوہائیو میں ریپبلکن جماعت کے قومی کنونشن میں شریک 'مسلم فار ٹرمپ' نامی گروپ کے بانی رہنما ساجد چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا تھا کہ جب مسلمان برادری کے لوگوں کو ٹرمپ کی پالسیوں کے بارے میں آگاہی حاصل ہو گی تو انہیں اپنے تحفظ کا زیادہ حساس ہو گا اور ان کے بقول ٹرمپ کو ووٹ دینے والے مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔