2010ء کے اختتام پردنیا کے بہت سے ملکوں میں غذائی اشیاء کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور اناج کے محفوظ ذخیرے کم ہو گئے ہیں۔ بعض ماہرین کو تشویش ہے کہ اگر قیمتوں میں اچانک تیزی سے اضافہ ہوا تو حالات2008 ء کی طرح نہ ہو جائیں جب فسادات پھوٹ پڑے تھے۔
2008ء میں غذائی اشیاء کی قیمتیں ریکارڈ سطح پر پہنچ گئیں تو دنیا کے کم از کم ایک درجن ملکوں میں فسادات پھوٹ پڑے۔ لیکن پھر اچھے موسم کی وجہ سے فصلیں اچھی ہوئیں اور 2010 شروع ہوا تو قیمتیں نیچے آ چکی تھیں۔
لیکن اس سال فروری میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے سربراہ Jacques Diouf نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ خطرہ اب بھی باقی ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ تمام عوامل جن کی وجہ سے قیمتوں کا بحران پیدا ہوا تھا اب بھی موجود ہیں۔ ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
زرعی فصلوں کو ایندھن کے لیے یا غذا کے لیے استعمال کرنے کے درمیان اب بھی مقابلہ ہے۔ اس سال امریکہ میں جتنی مکئی پیدا ہوئی اس کا ایک تہائی حصہ ایتھنول بنانے میں استعمال ہوا جسے گاڑیوں کے پیٹرول میں ملا کر ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
توانائی کی قیمتیں بھی اونچی رہیں جن سے غذائی اشیاء کی قیمتوں پر اثر پڑتا ہے اور دنیا کے آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ Diouf نے کہا کہ غذا ئی اشیاء کے مستقبل کے لیے یہ اچھے آثار نہیں ہیں۔ ’’میری دعا ہےکہ سب ٹھیک رہے لیکن اگر اناج بر آمد کرنے والے ملکوں میں سیلاب اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا تو حالات پھر خراب ہو جائیں گے‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ بحرِ اسود کے علاقے میں خشک سالی کی وجہ سےاس سال روس میں گیہوں کی فصل ایک تہائی کم ہو گئی ہے۔
ماسکو نے گیہوں کی بر آمد پر پابندی لگا دی جس سے اناج کی منڈیوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے شینیگن فان’’Shenggen Fan ‘‘ نے کہا ہےکہ’’روس نے اناج کی بر آمد کو خشک سالی کی وجہ سے ممنوع قرار دے دیا۔ اور قیمتوں میں اضافے کی وجہ برآمد پر روس کی طرف سے عائد کردہ پا بندی تھی‘‘۔
اناج کی قیمتیں مختلف علاقوں میں مختلف ہوتی ہیں لیکن زرعی اشیا کی عالمی منڈیوں میں گذشتہ سال کے دوران گیہوں اور مکئی کی قیمتوں میں پچاس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اور ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ اگلے سال قیمتیں اس سے بھی زیادہ ہو جائیں گی۔
قیمتیں پھر بھی دو سال پہلے کی سطح پر واپس نہیں گئی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ 2008ء کے مقابلے میں اس سال اناج کے ذخیرے زیادہ بڑے تھے۔ لیکن فان کہتے ہیں کہ آنے والے برسوں کے لیے کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ ہمیں فوری طور پر کچھ اقدامات کرنے چاہئیں۔ اگر ہم نے کچھ نہ کیا تو لازمی طور پر ہمیں ایک اور بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔
فان کہتےہیں کہ ملکوں کو چاہئیے کہ وہ اپنے کاشتکاروں کی پیداواری صلاحیت بڑھانے پر توجہ دیں کیوں کہ آنے والے برسوں میں، ہمیں زیادہ بھوکے لوگوں کا پیٹ بھرنا ہو گا جب کہ ہمارے پاس زمین، پانی اور دوسرے وسائل کم ہو رہے ہیں، اور آب و ہوا بھی تبدیل ہو رہی ہے۔
مختصر مدت میں، منڈیوں میں جنوبی امریکہ کی خشک سالی کی وجہ سے تشویش کی فضا موجود ہے۔ لیکن اقتصادی ماہر جان اینڈرسن کہتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ قیمتیں پھر 2008ء کی سطح پر واپس جائیں۔ کاشتکاروں نے قیمتوں میں اضافے کو دیکھتے ہوئے زیادہ فصلیں کاشت کی ہیں، اور اگر موسمی حالات تباہ کن نہ ہوئے، تو قیمتیں پھر پرانی سطح پر واپس آ جائیں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ کاشتکاروں نے اس قسم کے چیلنج کا سامنا کیا ہے ۔ جان اینڈرسن کا کہنا ہے کہ ’’گذشتہ دس ہزار سال سے ہماری آبادی بڑھ رہی ہے اور ہمارے وسائل محدود ہیں۔ ہم نے ایجا د و اختراع اور ٹیکنالوجی میں بہتری لا کر اس صورتِ حال کا مقابلہ کیا ہے‘‘۔
لیکن اینڈرسن کہتے ہیں کہ مارکیٹ میں قیمتوں پر ٹیکنالوجی میں بہتری کے اثرات ظاہر ہونے میں وقت لگے گا ۔ اس دوران کم ا ز کم اگلے چند مہینوں کے دوران غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی توقع ہے۔