|
ہزاروں اسرائیلی سات اکتوبر 2023کے بعد سے اسرائیل چھوڑ کر جا چکے ہیں۔یہ اعداد و شمار اسرائیلی حکومت اور کینیڈا ، جرمنی جیسے ان ملکوں کی طرف سے جاری کیے گئے ہیں جن کا اسرائیلیوں نے سفر کیا ہے ،
ان اعداد و شمار سے یہ خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ آیا یہ صورتحال میڈیسن اور ٹیک کے سیکٹرز میں برین ڈرین کی وجہ تو نہیں بن جائے گی۔
یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے ایک ماہر شماریات اور پروفیسر ایمریٹس ، سرجیو ڈیلاپرگولا کے مطابق ،مائیگریشن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ، ممکن ہے 2024 میں اسرائیل چھوڑ کر جانے والے لوگوں کی تعداد اسرائیل آنے والے تارکین وطن کی تعداد سے بڑھ جائے ۔
ایسا اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک کمزور جنگ بندی اور غزہ میں حماس کی جانب سے کسی توقف میں کچھ پیش رفت کے باوجود ممکن ہے ۔
اس وقت اسرائیل کی آبادی مسلسل بڑھتے ہوئے ایک کروڑ کے ہندسے کی جانب بڑھ رہی ہے ۔
سرکاری اعدادو شمار اور ان خاندانوں کے مطابق ، جنہوں نے ترک وطن کر کے کینیڈا، اسپین اور آسٹریلیا منتقل ہونے کے بعد حالیہ مہینوں میں ایسو سی ایٹڈ پریس سے بات کی ، ہزاروں اسرائیلیوں نے سات اکتوبر کے بعد سے ملک چھوڑنے کے لیے مالی ،جذباتی اور سماجی نقصان برداشت کرنے کو ترجیح دی ہے ۔
سرکاری اعداد وشمار
اسرائیل کے شماریات کے مرکزی ادارے نے ستمبر میں تخمینہ لگایا تھا کہ 2024 کے پہلے سات مہینوں میں 40,600 اسرائیلیوں نے طویل عرصے کے لیے ملک چھوڑا تھا جو کہ ایک سال پہلے کی اسی مدت کے مقابلے میں 59 فیصد زیادہ تعداد ہے، جب 25,500 لوگ ملک چھوڑ کر گئے تھے۔ سی بی ایس نے رپورٹ دی ہے کہ 2023 کے مقابلے میں اس سال ہر ماہ 2200 زیادہ لوگ ملک چھوڑ کرگئے ۔
اسرائیلی منسٹری آف امیگریشن اینڈ ایبزارپشن نے ، جس کا تعلق ملک چھوڑ کر جانے والوں کے معاملات سے نہیں ہے ،کہا ہے کہ جنگ کے آغاز سے 33 ہزار سے زیادہ لوگ اسرائیل منتقل ہو چکے ہیں۔ ایک ترجمان نے کہاکہ وزیر داخلہ نے اس خبر پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
برین ڈرین کا خطرہ
کچھ دوسری علامات بھی یہ نشاندہی کرتی ہیں کہ اسرائیلیوں کی ایک نمایاں تعداد ملک سے روانہ ہورہی ہے۔ تل ابیب سوراسک میڈیکل سنٹر کے ڈپٹی ڈائریکٹر گل فائر ، نے کہا ہے کہ دوسرے ملکوں میں چند سال کی فیلو شپ پوسٹنگ پر گئے ہوئے سینٹر کےکچھ ممتاز ماہرین نے واپس آنے سے گریز شروع کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ، جنگ سے قبل ، وہ ہمیشہ واپس آجاتے تھے اور وہاں ٹھہرنےکے کسی خیال کودر حقیقت زیر غوار نہیں لایا جاتا تھا۔ جنگ کے دنوں میں ہم نے ایک تبدیلی دیکھنا شروع کی ۔ ’’ انہوں نےہم سے کہا ، ہم ایک اور سال، اور ممکن ہے دو سال ، یا ممکن ہے اس سے زیادہ ٹھہریں گے۔‘‘
فائر نے کہا کہ ، یہ مسئلہ تشویش کا باعث ہے ، اس حد تک کہ وہ ان ڈاکٹروں کو اسرائیل واپس لانے کی کوشش کےلیے ان سے براہ راست ملاقات کےلیے ان کے پاس جانے کا پروگرام بنا سکتےہیں۔
مشیل ہیرل نے ، جو 2019 میں اپنے شوہر کے ساتھ ٹورنٹو منتقل ہوئی تھیں کہا کہ حملوں کے تقریباً فوراً بعد فون کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔۔ دوسرے اسرائیلی کینیڈا منتقل ہونے کے لیے مشورےمانگنے لگے۔ اس جوڑے نے منقتلی کے خواہش مند اسرائیلیوں کی مدد کے لیے 23 نومبر 2023 کو ایک ویب سائٹ بنائی ۔
نقل مکانی پر خرچ
ہیرل اور نقل مکانی سے متعلق دوسرے ماہرین نے کہا ہےکہ اس نقل مکانی میں کم ازکم ایک لاکھ اسرائیلی شیکلز ، یا لگ بھگ 28 ہزار امریکی ڈالر تک خرچ ہو سکتے ہیں ۔
لیکن ایسا نہیں ہے کہ اسرائیل میں ہر ایک پیک اپ کر کے بیرون ملک منتقل ہو سکتاہے ۔ جنہوں نے ایسا کیا ہے ان میں سے بہت سے وہ ہیں جن کے پاس غیر ملکی پاسپورٹ ہیں، ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ملازمتیں ہیں یا وہ ریموٹ طریقے سے کام کر سکتے ہیں۔
غزہ کے لوگ، جہاں صحت کے مقامی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ 45ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں، اس سے بھی کم ایسا کر نے کی استطاعت رکھتے ہیں۔
ہیرل نے رپورٹ دی کہ ، صرف 2024 میں ان کی ویب سائٹ پر ایک لاکھ منفرد وزیٹرز اورپانچ ہزار ڈائریکٹ کونٹیکٹس نے ویوز دیے۔
اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی میں اسرائیلی اسٹڈیز کے ایک پروفیسر اور اسرائیلی امیگریشن کی تاریخ پر ایک کتاب ،’لیونگ زائیون‘ کے مصنف ، اوری یہودائی کہتے ہیں،’’ ترک وطن ایک خطرہ تھا، خاص طور پر ابتدائی برسوں میں جب ملک کی تعمیر کے مسائل موجود تھے تاہم لو گ اب محسوس کرتے ہیں کہ انہیں نقل مکانی کے اپنے فیصلے کا جواز دینا ہوگا ‘‘
سات اکتوبر 2023کو حماس کے عسکریت پسندوں نے جنوبی اسرائیل پر حملہ کر کے 1200 افراد کو ہلاک اور 250 کو یرغمال بنایا تھا جن میں سے 100 کے قریب اب بھی حماس کے پاس ہیں۔ اس کے بعد سے غزہ میں جنگ کے دوران، اسرائیلی بمباری سے فلسطینی وزارتِ صحت کے مطابق 45,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔
فورم