16 جولائی 1969 کو صبح نو بج کر بتیس منٹ پر اپالو 11 امریکی خلا نوردوں کو لے کر چاند پر قدم رکھنے کے لیے روانہ ہوا تھا۔ آج جبکہ مشن کی 50 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے، اب بھی بہت سے لوگ اس مخمصے کا شکار ہیں کہ کیا واقعی انسان نے چاند پر قدم رکھا تھا یا پھر یہ امریکیوں کی طرف سے ایک ڈراما رچایا گیا تھا۔
تاہم، ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ ایسی بے یقینی کا اظہار ایسے ہی ہے جیسے کوئی یہ سوال کرنے لگے کہ کیا واقعی ٹائی ٹینک نامی جہاز کا کوئی وجود تھا اور کیا واقعی وہ حادثے کا شکار ہو کر غرق ہو گیا تھا؟
امریکی خلانورد نیل آرمسٹرانگ نے 20 جولائی، 1969 کو چاند پر قدم رکھا تھا۔
یہ معرکہ سالہا سال کی ریاضت اور امریکی سائنسدانوں اور انجینئروں کی ان تھک محنت کا نتیجہ تھا جنہوں نے نیل آرمسٹرانگ اور ان کے ساتھی خلانوردوں کو چاند پر پہنچانے کیلئے انتہائی حساس آلات سے لیس خلائی جہاز اپالو بنایا۔
اور پھر انہوں نے ناصرف چاند پر قدم رکھا بلکہ وہاں سے بھاری مقدار میں پتھر اور مٹی کے نمونے واپس لے کر زمین پر پہنچے جن کے سائنسی تجزیے نے چاند کی سطح کے بارے میں بہت سی گتھیاں سلجھائیں۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ اپالو 11 کی روانگی سے چند ہی روز قبل سوویت یونین نے اپنا خلائی جہاز چاند کے مدار میں بھیجا تھا۔ تاہم، وہ اپنے کسی خلانورد کو چاند پر نہ اتار سکا اور بالآخر اس نے یہ ارادہ ہی ختم کر دیا۔
امریکی خلا نورد کی چاند پر لینڈنگ اور وہاں چہل قدمی، جسے بعد میں مون واک کا نام دیا گیا، دنیا بھر میں لائیو ویڈیو کے ذریعے دکھائی گئی۔
یوں اگرچہ یہ مفروضہ مان ہی لیا جائے کہ شاید انسان چاند پر نہیں اترا تھا اور یہ سب من گھڑت ہے تو سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ سوویت یونین امریکہ کے ساتھ جارحانہ مسابقت کی وجہ سے فوراً اس بات کو جھٹلا دیتا۔ لیکن، اس نے ایسا نہیں کیا۔
’فوربز‘ رسالے میں شائع ہونے والے ایک تفصیلی مضمون میں ایتھین سیگل کہتے ہیں کہ مجھے 100 فی صد یقین ہے کہ انسان نے چاند پر قدم رکھا، جس کی بنیاد اس ناقابل تردید سائنسی ثبوت پر ہے جو دستیاب ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمیں پتا ہے کہ چاند سے متعلق اپالو پروگرام موجود تھا جو کامیابی سے ہمکنار ہوا اور جس کا باریک بینی سے دستاویزی ثبوت موجود ہے۔
اس ضمن میں، انھوں نے بتایا کہ ناسا نے ’آربٹر‘ کے ذریعے چاند کی سرزمین کو سروے کیا، جس سے اپالو کے اترنے کے مقامات کا دستاویزی ثبوت فراہم ہوا۔ پھر یہ کہ آربٹر پر نصب اینگل کیمرا کے ذریعے اپالو 12، 14 اور 17 کے چاند پر اترنے کے مقامات کے فوٹو لیے گئے، جو موجود ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ چونکہ چاند کی سطح پر ہوا موجود نہیں ہے، اس لیے وہاں انسانی قدم کے نشان آج بھی اسی طرح موجود ہیں، جنھیں مٹایا نہیں جا سکتا۔
مزید یہ کہ سارے پروگرام کے دستاویزی ثبوت کو محفوظ کرنے کے لیے، اپالو کے خلانوردوں نے ہزاروں تصاویر لیں، جو ریکارڈ پر موجود ہیں۔ چند برس قبل ناسا نے بارہ اپالو مشنز کی تصاویر جاری کیں، جو ’فلکر فوٹو اسٹریم‘ پر دیکھی جا سکتی ہیں، جس سے تصاویر کے البم تیار ہوئے۔
آج اس تاریخ ساز پیش رفت کو تقریباً 50 برس مکمل ہو گئے ہیں اور ہم اس بات کا فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں کہ چاند پر انسان کا قدم رکھنا حقیقت ہے یا پھر افسانہ۔