اسرائیل کے فوجیوں کی غزہ کی سرحد پر فائرنگ سے ایک 15 سالہ لڑکے سمیت چار افراد ہلاک اور 150 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔
محکمہ صحت کے حکام کے مطابق یہ واقعہ جمعہ کو پیش آیا جہاں ہزاروں افراد کی طرف سے اسرائیل سے ملحقہ سرحد پر احتجاج کا چوتھا ہفتہ شروع ہوا۔
مظاہرین کی طرف سے ٹائر جلائے جانے کی وجہ سے سرحدی علاقے میں دھوئیں کے سیاہ بادل اٹھتے ہوئے دیکھے گئے جب کہ بعض مظاہرین نے اسرائیلی باڑ کی طرف پتھراؤ کرنے کے علاوہ پتنگوں کے ساتھ کپڑے باندھ کر انھیں آگ جلائی اور سرحد کی جانب اڑایا۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق ان تازہ ہلاکتوں کے بعد گزشتہ ماہ کے اواخر سے ہونے والے اس احتجاج کے دوران اسرائلی فورسز کی فائرنگ سے مرنے والے فلسطینیوں کی تعداد 32 ہو گئی ہے جب کہ تین ہفتوں کے دوران گولیاں لگنے سے 1600 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔
اس جانی نقصان سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ بین الاقوامی تنقید کے باوجود اسرائیلی فوج مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کی اپنی پالیسی پر بدستور کاربند ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرحد کا دفاع کر رہا ہے اور اس غزہ پر حکمران حماس پر الزام عائد کی اہے کہ وہ ان مظاہرین کے ذریعے اپنے حملوں کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔
جمعہ کو دیر گئے اقوام متحدہ میں فلسطین کے سفیر ریاض منصور نے سلامتی کونسل کو لکھے گئے ایک خط میں کہا کہ اسرائیلی فورسز نہتے شہریوں کی طرف سے آزادی و انصاف کے جواب میں مہلک ہتھیار استعمال کر رہی ہیں۔ ان کے بقول حال میں ان گولیوں کا نشانہ بننے والوں میں ایک 25 سالہ معذور شخص بھی شامل ہے۔
اسرائیلی فوجی سرحد پر اپنی جانب باڑ کے ساتھ تعینات ہیں اور ان میں ماہر نشانہ بازوں بھی شامل ہیں۔