فرانس کی ایک عدالت نے ایک کم عمر لڑکی کو اسلام پر تنقیدی پوسٹس ڈالنے کے بعد آن لائن ہراساں کرنے والے گیارہ افراد کو سائبر بلینگ کے جرم کا مرتکب ٹھہرایا ہے۔
اپنی طرز کا یہ واحد مقدمہ تھا جس کے لیے فرانس نے سائبر بلینگ کے کیس سے نمٹنے کے لیے ایک نئی عدالت قائم کی تھی۔
خبر رساں ادارے، ایسو سی ایٹد پریس کے مطابق دھمکیاں ملنے کے بعد میلا نامی لڑکی کو کئی اسکول بدلنا پڑے اور اپنی حفاظت کے لیے پولیس کی مدد بھی حاصل کرنا پڑی۔
مجرم ٹھہرائے جانے والے 11 افراد میں سے ہر ایک کو 1,770 ڈالر جرمانہ ادا کرنا ہوگا جب کہ ان کی جیل کی سزا معطل کر دی گئی ہے۔
مقدمے کے دوران میلا نے کہا تھا کہ ہراساں کئے جانے کے دوران انہیں ایسا لگا کہ ان کو سزائے موت کا سامنا ہے۔
مقدمے کے فیصلے کے بعد میلا نے کہا کہ آن لائن ہراساں کیے جانے والے تمام افراد کو اس کے خلاف اکٹھا ہونا چاہیے اور ہراساں کرنے والے لوگوں کی سوشل میڈیا تک رسائی روک دینی چاہیے۔
میلا کہتی ہیں کہ وہ کسی بھی مذہب کی پیروکار نہیں اور جب انہوں نے انسٹا گرام اور ٹک ٹاک پر اسلام اور قرآن پر تنقیدی ویڈیوز پوسٹ کیے اس وقت ان کی عمر سولا سال تھی۔ میلا جو اب اٹھارہ برس کی ہیں کہتی ہیں کہ صرف اسلام ہی نہیں وہ کسی بھی مذہب کو پسند نہیں کرتیں۔
وہ کہتی ہیں کہ آئندہ سائبر بلینگ کا شکار ہونے والے کسی بھی شخص کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔
میلا کے وکیل رچرڈ ملکا نے بتایا کہ میلا کو ایک لاکھ سے زیادہ دھمکی آمیز پیغامات موصول ہوئے ہیں جن میں خواتین مخالف باتیں اور ریپ کی دھمکیاں بھی شامل ہیں۔
فرانس میں جنسی مساوات اور امتیاز سے تحفظ کی وزیر، مارلین سکیاپا کہتی ہیں کہ فرانس میں 2018 کے قانون کے مطابق سائبر بلینگ کی ممانعت ہے۔
وہ کہتی ہیں قانون سے متعلق حکام کو اس بارے میں کاروائی کر نی چاہیئے۔
اپنی نوعیت کے اس انوکھے مقدمے نے آزادی رائے کے متعلق کسی مذہب پر تنقید کرنے اور فرانس میں بسنے والے لاکھوں مسلمانوں کی عزت کے متعلق سوالات اٹھائے۔ البتہ، عدالت نے اس مقدمے کے دوران سائبر بلینگ پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔
مقدمے میں 13 ملزمان تھے جو فرانس میں بسنے والی مختلف برادریوں سے تعلق رکتھے ہیں۔ وکیل دفاع حوان برانکو نے اس مقدمے کی بنیاد بنائے جانے والے نقطے کی مذمت کی۔
حوان نے کہا کہ ایسے علامتی ٹرائلز جن میں ایک شخص کو استعمال کر کے معاشرے کو پیغام دیا جاتا ہے بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک ملزم جارڈن ایل کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ کوئی انتہا پسند نہیں بلکہ وہ دوسروں کے عقائد کا احترام کرتے ہیں۔ لیکن وہ ایسے ماحول کو پسند نہیں کرتے جس میں فرانس کی آبادی کے ایک مخصوص حصے کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
فرانس میں 2018 میں قانونی طور پر آن لائن ہراساں کئے جانےکو جرم قرار دینے کے بعد دھمکیاں دینے اور نفرت انگیز مواد کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ پولیس کے مطابق 2019 میں 2,128 ایسے واقعات ہوئے، جبکہ گزشتہ سال 2,848 ایسے واقعات سامنے آئے۔