پیرس —
فرانس نے افریقہ میں اپنی سابق نو آبادی، مالی میں جو فوجی کارروائی کی ہے، اس پر عام طور سے ملک کے اندر اور باہر اس کی تعریف کی گئی ہے۔ لیکن یہ ایسا اقدام ہے جس کے نتائج غیر یقینی ہیں اور اسلامی انتہا پسندوں کی طرف سے جوابی کارروائی کا امکان بھی ہے۔
مالی میں فرانس کی فوجی کارروائی شروع ہوئے چار دن ہوئے ہیں اور اس نے بڑی تیزی سے جنوب میں اسلام پسندوں کی یلغار کو روک دیا ہے اور بغاوت کی تحریک کو کچلنے کے لیے شمال میں بعض مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔
پیر کے روز فرانس کے ریڈیو پر انٹرویو میں، مالی میں فرانس کے سفیر کرسٹیئن رویر نے کہا کہ انتہا پسندوں کو زَک اٹھانی پڑی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی موجودگی سے نہ صرف مالی کے استحکام کو بلکہ ساحل کے پورے علاقے کو خطرہ لاحق ہے۔
رویر نے کہا کہ فرانس کے ہوائی حملوں سے صورتِ حال تبدیل ہو گئی ہے، اسلام پسندوں کو موکتی اور ساوار جیسے اہم قصبوں سے جو دارالحکومت باماکو سے چند سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں، نکال دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ دارالحکومت میں حالات پر سکون ہیں۔
لیکن فرانسیسی عہدے داروں نے یہ بات تسلیم کی کہ انہیں باغیوں کی مہارت اور تیاری کی حالت پر حیرت ہوئی ہے اور اس اعلان کے چند گھنٹے بعد ہی کہ انھوں نے باغیوں کی پیش قدمی روک دی ہے، انھوں نے کہا کہ باغیوں نے مالی کے قصبے دیابالے پر حملہ کر دیا ہے اور اس پر قبضہ کر لیا ہے۔
ڈاکار میں مقیم انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے تجزیہ کار گلز یابی نے پیش گوئی کی ہے کہ مالی کے شمال میں اسلام پسندوں کے مضبوط ٹھکانوں کو ختم کرنے میں، ابھی اور زیادہ دشواریاں پیش آئیں گی۔
’’اس قسم کی کارروائیوں میں ہمیشہ یہ خطرہ ہوتا ہے کہ ان میں ابتدائی اندازے سے زیادہ وقت لگ جائے گا۔ یہ کوئی روایتی جنگ نہیں ہے کیوں کہ دشمن بہت تیزی سے حرکت کرتا ہے، اور ہم بات کر رہے ہیں دہشت گردوں کے گروپوں کی۔ اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ شہروں سے پسپا ہونے کے بعد، جہاں وہ فرانس کی طاقتور ملٹری کے خلاف نہیں لڑ سکتے، وہ ایسے علاقوں میں چھپ جائیں گے جہاں تک پہنچنا بہت مشکل ہو گا جیسے الجزائر کے نزدیک کے پہاڑی علاقے ۔‘‘
فی الحال، فرانس کی فوجی کارروائی سے صدر فرانسس اولاندے کی تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت کی شرح بہتر ہو رہی ہے۔ ان کے بعض سخت ترین ناقدین نے بھی، جیسے انتہائی دائیں بازو کی سیاستدان میرین لی پن نے، صدر کے اس اقدام کی حمایت کی ہے۔
لیکن فرانس کے ریڈیو پر، لی پن نے اپنی حمایت کو مشروط کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ فرانس کی طرف سے مالی میں کارروائی کرنے کا فیصلہ تو درست تھا، لیکن اسلام پسندوں کا روز افزوں اثر و رسوخ ان غلطیوں کا نتیجہ ہے جو فرانس سے لیبیا اور شام میں سرزد ہوئی ہیں۔
افریقی پریس کے بعض حلقوں نے بھی اس اقدام پر تنقید کی ہے۔ فرانس نے محتاط رویہ اختیار کیا ہے اور مالی میں کارروائی کو اس وقت تک کے لیے ایک عارضی اقدام کہا ہے جب تک مغربی افریقہ میں اسلام پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی نہیں ہوتی۔ لیکن الجزائر میں، جس کے تعلقات فرانس کے ساتھ کشیدہ ہیں، اخباروں کے اداریوں میں فرانس کے اصل عزائم پر شک و شبہے کا اظہار کیا گیا ہے۔ تجزیہ کارگلز یابی کہتے ہیں’’میرے خیال میں ابتدا میں فرانس، مالی میں بہت طویل اور بہت اہم فوجی کارروائی کرنا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مالی کی صورتِ حال پورے علاقے کے لیے، جس میں نیجر اور ماریطانیہ شامل ہیں، خطرہ بنی ہوئی ہے۔‘‘
فوجی اقدام کے دوسرے خطرات بھی ہیں۔ اسلام پسندوں کے گروپوں نے فرانس کے خلاف جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے، اور فرانسیسی عہدے داروں کو ان آٹھ فرانسیسیوں کے انجام کے بارے میں خدشات ہیں جنہیں یرغمال بنا لیا گیا ہے۔
پیرس کے انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل اسٹڈیز میں دہشت گردی کے ماہر جان پیرر فیلیو کہتے ہیں کہ دوسرے ملکوں میں فوجی کارروائی مختصر عرصے کے لیے اور مخصوص اہداف کے خلاف ہونی چاہیئے۔ ریڈیو پر اپنے ریمارکس میں فیلیو نے وسیع تر اہداف جیسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے خلاف انتباہ کیا۔
انھوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے مسئلے کی نوعیت محدود ہے۔ ہم بعض جیتے جاگتے دشمنوں سے جنگ کر رہے ہیں جو جرائم پیشہ ہیں اور لوگوں کو یرغمال بناتے ہیں۔ امریکہ میں سابق بش انتظامیہ نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کا بیڑا اٹھایا، اور اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
فرانس کی حکومت کا کہنا ہے کہ مالی میں فوجی کارروائی میں اتنا ہی وقت لگے گا جتنا اسلام پسندوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے نہیں تو انہیں شکست دینے کے لیے ضروری ہو گا۔ یہاں پیرس میں بہت سے لوگوں کو اُمید ہے کہ اس کا مطلب ہے چند ہفتے، مہینے یا سال نہیں۔
مالی میں فرانس کی فوجی کارروائی شروع ہوئے چار دن ہوئے ہیں اور اس نے بڑی تیزی سے جنوب میں اسلام پسندوں کی یلغار کو روک دیا ہے اور بغاوت کی تحریک کو کچلنے کے لیے شمال میں بعض مقامات کو نشانہ بنایا ہے۔
پیر کے روز فرانس کے ریڈیو پر انٹرویو میں، مالی میں فرانس کے سفیر کرسٹیئن رویر نے کہا کہ انتہا پسندوں کو زَک اٹھانی پڑی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کی موجودگی سے نہ صرف مالی کے استحکام کو بلکہ ساحل کے پورے علاقے کو خطرہ لاحق ہے۔
رویر نے کہا کہ فرانس کے ہوائی حملوں سے صورتِ حال تبدیل ہو گئی ہے، اسلام پسندوں کو موکتی اور ساوار جیسے اہم قصبوں سے جو دارالحکومت باماکو سے چند سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں، نکال دیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ دارالحکومت میں حالات پر سکون ہیں۔
لیکن فرانسیسی عہدے داروں نے یہ بات تسلیم کی کہ انہیں باغیوں کی مہارت اور تیاری کی حالت پر حیرت ہوئی ہے اور اس اعلان کے چند گھنٹے بعد ہی کہ انھوں نے باغیوں کی پیش قدمی روک دی ہے، انھوں نے کہا کہ باغیوں نے مالی کے قصبے دیابالے پر حملہ کر دیا ہے اور اس پر قبضہ کر لیا ہے۔
ڈاکار میں مقیم انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے تجزیہ کار گلز یابی نے پیش گوئی کی ہے کہ مالی کے شمال میں اسلام پسندوں کے مضبوط ٹھکانوں کو ختم کرنے میں، ابھی اور زیادہ دشواریاں پیش آئیں گی۔
’’اس قسم کی کارروائیوں میں ہمیشہ یہ خطرہ ہوتا ہے کہ ان میں ابتدائی اندازے سے زیادہ وقت لگ جائے گا۔ یہ کوئی روایتی جنگ نہیں ہے کیوں کہ دشمن بہت تیزی سے حرکت کرتا ہے، اور ہم بات کر رہے ہیں دہشت گردوں کے گروپوں کی۔ اس بات کا امکان بہت زیادہ ہے کہ شہروں سے پسپا ہونے کے بعد، جہاں وہ فرانس کی طاقتور ملٹری کے خلاف نہیں لڑ سکتے، وہ ایسے علاقوں میں چھپ جائیں گے جہاں تک پہنچنا بہت مشکل ہو گا جیسے الجزائر کے نزدیک کے پہاڑی علاقے ۔‘‘
فی الحال، فرانس کی فوجی کارروائی سے صدر فرانسس اولاندے کی تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت کی شرح بہتر ہو رہی ہے۔ ان کے بعض سخت ترین ناقدین نے بھی، جیسے انتہائی دائیں بازو کی سیاستدان میرین لی پن نے، صدر کے اس اقدام کی حمایت کی ہے۔
لیکن فرانس کے ریڈیو پر، لی پن نے اپنی حمایت کو مشروط کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ فرانس کی طرف سے مالی میں کارروائی کرنے کا فیصلہ تو درست تھا، لیکن اسلام پسندوں کا روز افزوں اثر و رسوخ ان غلطیوں کا نتیجہ ہے جو فرانس سے لیبیا اور شام میں سرزد ہوئی ہیں۔
افریقی پریس کے بعض حلقوں نے بھی اس اقدام پر تنقید کی ہے۔ فرانس نے محتاط رویہ اختیار کیا ہے اور مالی میں کارروائی کو اس وقت تک کے لیے ایک عارضی اقدام کہا ہے جب تک مغربی افریقہ میں اسلام پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی نہیں ہوتی۔ لیکن الجزائر میں، جس کے تعلقات فرانس کے ساتھ کشیدہ ہیں، اخباروں کے اداریوں میں فرانس کے اصل عزائم پر شک و شبہے کا اظہار کیا گیا ہے۔ تجزیہ کارگلز یابی کہتے ہیں’’میرے خیال میں ابتدا میں فرانس، مالی میں بہت طویل اور بہت اہم فوجی کارروائی کرنا نہیں چاہتا تھا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مالی کی صورتِ حال پورے علاقے کے لیے، جس میں نیجر اور ماریطانیہ شامل ہیں، خطرہ بنی ہوئی ہے۔‘‘
فوجی اقدام کے دوسرے خطرات بھی ہیں۔ اسلام پسندوں کے گروپوں نے فرانس کے خلاف جوابی کارروائی کی دھمکی دی ہے، اور فرانسیسی عہدے داروں کو ان آٹھ فرانسیسیوں کے انجام کے بارے میں خدشات ہیں جنہیں یرغمال بنا لیا گیا ہے۔
پیرس کے انسٹی ٹیوٹ آف پولیٹیکل اسٹڈیز میں دہشت گردی کے ماہر جان پیرر فیلیو کہتے ہیں کہ دوسرے ملکوں میں فوجی کارروائی مختصر عرصے کے لیے اور مخصوص اہداف کے خلاف ہونی چاہیئے۔ ریڈیو پر اپنے ریمارکس میں فیلیو نے وسیع تر اہداف جیسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے خلاف انتباہ کیا۔
انھوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے مسئلے کی نوعیت محدود ہے۔ ہم بعض جیتے جاگتے دشمنوں سے جنگ کر رہے ہیں جو جرائم پیشہ ہیں اور لوگوں کو یرغمال بناتے ہیں۔ امریکہ میں سابق بش انتظامیہ نے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کا بیڑا اٹھایا، اور اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
فرانس کی حکومت کا کہنا ہے کہ مالی میں فوجی کارروائی میں اتنا ہی وقت لگے گا جتنا اسلام پسندوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے نہیں تو انہیں شکست دینے کے لیے ضروری ہو گا۔ یہاں پیرس میں بہت سے لوگوں کو اُمید ہے کہ اس کا مطلب ہے چند ہفتے، مہینے یا سال نہیں۔