واشنگٹن —
فرانس نے الزام عائد کیا ہے کہ شام میں صدر بشار الاسد کے حامی فوجی دستوں کے ہمراہ لبنانی تنظیم 'حزب اللہ' کے بھی لگ بھگ چار ہزار جنگجو لڑائی میں شریک ہیں۔
فرانس کے وزیرِ خارجہ لوغاں فیبیوس نے بدھ کو پیرس میں اراکینِ پارلیمان کو بتایا کہ شام میں ہونے والی لڑائی میں لبنان کی شیعہ تنظیم 'حزب اللہ' کے جنگجووں کے شریک ہونے کی معتبر اطلاعات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شام میں جاری خانہ جنگی میں شریک حزب اللہ کے جنگجووں کی تعداد تین سے 10 ہزار تک بیان کی جاتی ہے لیکن فرانسیسی انٹیلی جنس کو دستیاب اطلاعات کے مطابق لبنانی شیعہ تنظیم کے تین سے چار ہزار جنگجو شام میں لڑ رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی سربراہ نیوی پیلے نے بھی کہا ہے کہ شام میں 'حزب اللہ' کی مداخلت کے نتیجے میں خطے میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
بدھ کو اپنے ایک بیان میں عالمی ادارے کی عہدیدار نے کہا کہ ایران کی حمایت یافتہ لبنانی شیعہ تنظیم کے جنگجو صدر اسد کی افواج کے ہمراہ باغیوں سے لڑائی میں مصروف ہیں۔
شام میں صدر اسد کے خلاف لڑنے والے باغیوں کی سب سے بڑی تنظیم 'فری سیرین آرمی' نے منگل کو دھمکی دی تھی کہ اگر 'حزب اللہ' نے اپنے جنگجووں کو شام سے واپس نہ بلایا تو ان کا "جہنم تک تعاقب" کیاجائے گا۔
منگل ہی کو مسلح افراد نے شام کی سرحد کے نزدیک قائم ایک چوکی پر تعینات تین لبنانی فوجیوں کو بھی گولی مار کر قتل کردیا تھا۔ اس واقعے سے قبل اتوار کو لبنان کے دارالحکومت بیروت راکٹ حملوں کا نشانہ بنا تھا جن میں سے دو راکٹ شہر کے جنوبی نواحی علاقے میں قائم حزب اللہ کے صدر دفاتر کے نزدیک گرے تھے۔
راکٹ حملے 'حزب اللہ' کے سربراہ حسن نصر اللہ کے اس بیان کے چند گھنٹوں بعد ہوئے تھے جس میں انہوں نے صدر بشار الاسد کا "آخری دم تک" ساتھ دینے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
خیال رہے کہ اسرائیل کو راکٹ حملوں کا نشانہ بنانے والے مسلح لبنانی تنظیم 'حزب اللہ' کو ایران اور شام کی شیعہ حکومتوں کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔
امریکی وزارتِ خارجہ نے بھی شام میں 'حزب اللہ' کے جنگجووں کی موجودگی پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے لبنانی تنظیم سے اپنے کارکنوں کو شام سے فوری واپس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
بدھ کو واشنگٹن میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان جین پساکی نے 'حزب اللہ' کے جنگجووں کی شام کی لڑائی میں شرکت کو "ناقابلِ قبول" اور "خطرناک" قراردیتے ہوئے کہا کہ امریکہ لبنانی تنظیم سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے تمام جنگجووں کو شام سے فوراً واپس بلائے۔
فرانس کے وزیرِ خارجہ لوغاں فیبیوس نے بدھ کو پیرس میں اراکینِ پارلیمان کو بتایا کہ شام میں ہونے والی لڑائی میں لبنان کی شیعہ تنظیم 'حزب اللہ' کے جنگجووں کے شریک ہونے کی معتبر اطلاعات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شام میں جاری خانہ جنگی میں شریک حزب اللہ کے جنگجووں کی تعداد تین سے 10 ہزار تک بیان کی جاتی ہے لیکن فرانسیسی انٹیلی جنس کو دستیاب اطلاعات کے مطابق لبنانی شیعہ تنظیم کے تین سے چار ہزار جنگجو شام میں لڑ رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی سربراہ نیوی پیلے نے بھی کہا ہے کہ شام میں 'حزب اللہ' کی مداخلت کے نتیجے میں خطے میں کشیدگی بڑھ رہی ہے۔
بدھ کو اپنے ایک بیان میں عالمی ادارے کی عہدیدار نے کہا کہ ایران کی حمایت یافتہ لبنانی شیعہ تنظیم کے جنگجو صدر اسد کی افواج کے ہمراہ باغیوں سے لڑائی میں مصروف ہیں۔
شام میں صدر اسد کے خلاف لڑنے والے باغیوں کی سب سے بڑی تنظیم 'فری سیرین آرمی' نے منگل کو دھمکی دی تھی کہ اگر 'حزب اللہ' نے اپنے جنگجووں کو شام سے واپس نہ بلایا تو ان کا "جہنم تک تعاقب" کیاجائے گا۔
منگل ہی کو مسلح افراد نے شام کی سرحد کے نزدیک قائم ایک چوکی پر تعینات تین لبنانی فوجیوں کو بھی گولی مار کر قتل کردیا تھا۔ اس واقعے سے قبل اتوار کو لبنان کے دارالحکومت بیروت راکٹ حملوں کا نشانہ بنا تھا جن میں سے دو راکٹ شہر کے جنوبی نواحی علاقے میں قائم حزب اللہ کے صدر دفاتر کے نزدیک گرے تھے۔
راکٹ حملے 'حزب اللہ' کے سربراہ حسن نصر اللہ کے اس بیان کے چند گھنٹوں بعد ہوئے تھے جس میں انہوں نے صدر بشار الاسد کا "آخری دم تک" ساتھ دینے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
خیال رہے کہ اسرائیل کو راکٹ حملوں کا نشانہ بنانے والے مسلح لبنانی تنظیم 'حزب اللہ' کو ایران اور شام کی شیعہ حکومتوں کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔
امریکی وزارتِ خارجہ نے بھی شام میں 'حزب اللہ' کے جنگجووں کی موجودگی پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے لبنانی تنظیم سے اپنے کارکنوں کو شام سے فوری واپس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
بدھ کو واشنگٹن میں صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان جین پساکی نے 'حزب اللہ' کے جنگجووں کی شام کی لڑائی میں شرکت کو "ناقابلِ قبول" اور "خطرناک" قراردیتے ہوئے کہا کہ امریکہ لبنانی تنظیم سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے تمام جنگجووں کو شام سے فوراً واپس بلائے۔