|
ویب ڈیسک — یورپی ملک فرانس میں انتخابات کے رن آف مرحلے کے دوران اتوار کو ووٹنگ کا دن ہے جس میں مارین لوپن کی امیگریشن مخالف قوم پرست نیشنل ریلی تاریخی کامیابی حاصل کر سکتی ہے یا پھر ایک ایسی معلق پارلیمان وجود میں آ سکتی ہے جس سے مبصرین کے مطابق اگلے کئی برس تک سیاسی بحران کا سامنا ہو گا۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق جوہری ہتھیاروں سے لیس فرانس میں انتخابات یوکرین جنگ، عالمی سفارت کاری اور یورپ کے معاشی استحکام پر اثر انداز ہوں گے۔
فرانس میں 30 جون کو ہونے والے انتخابات کے پہلے راؤنڈ میں مارین لوپن کی قیادت میں امیگریشن مخالف قوم پرست نیشنل ریلی سب سے زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی تھی تاہم اس کو حکومت سازی کے لیے درکار ووٹ نہیں مل سکے تھے۔
فرانس میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد لگ بھگ ساڑھے چار کروڑ سے زائد ہے جو اس بات کا تعین کریں گے کہ فرانس کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں کون سی جماعت حکومت بنائے گی اور وزیرِ اعظم کون ہو گا۔
رپورٹس کے مطابق اگر فرانسیسی صدر میخواں کی کمزور اکثریت میں مزید کمی آتی ہے تو وہ ان جماعتوں کے ساتھ اقتدار شیئر کرنے پر مجبور ہو جائیں گے جو ان کے کاروبار کے حامی اور یورپی یونین کی حامی پالیسیوں کی مخالف ہیں۔
فرانس میں ہونے والے انتخابات کے دوران انتخابی مہم کو نسل پرستی اور روسی سائبر حملوں نے متاثر کیا جب کہ 50 سے زائد امیدواروں پر جسمانی طور پر حملے کیے جانے کی رپورٹس بھی ہیں جو کہ فرانس کے لیے انتہائی غیر معمولی ہیں۔
حکومت کی طرف سے رن آف انتخابات کے دوران سیکیورٹی کے لیے 30 ہزار پولیس اہل کار تعینات کیے گئے ہیں۔
انتخابات کے دوران فرانس میں ووٹنگ کے عمل کے لیے رات آٹھ بجے تک وقت مقرر کیا گیا ہے جب کہ ابتدائی سرکاری نتائج اتوار کو رات گئے یا پیر کی صبح متوقع ہیں۔
انتخابات کے نتیجے میں ممکنہ طور پر فرانس میں دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی قبضے کے بعد سے شاید پہلی مرتبہ دائیں بازو کی حکومت تشکیل پا سکتی ہے یا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی بھی جماعت مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کر پائے۔
رپورٹس کے مطابق نیشنل ریلی 577 نشستوں والی قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں تو جیت سکتی ہے تاہم اکثریت کے لیے درکار 289 نشستیں لینا مشکل ہو گا۔
اگر نیشنل ریلی یہ اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو میخواں ایک غیر روایتی انتظام کے تحت اقتدار میں حصہ لینے پر مجبور ہو جائیں گے جسے فرانس کوہیبیٹیشن کہا جاتا ہے۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔