رسائی کے لنکس

اسکولوں میں مسلم طالبات کے عبایا پہننے پر پابندی درست ہے: فرانسیسی عدالت کا فیصلہ


فرانس کی ایک اعلیٰ عدالت نے اسکولوں میں طالبات کےعبایا پہننے پر حکومتی پابندی کو برقرار رکھتے ہوئے مسلم تنظیم کی جانب سے دائر درخواست نمٹا دی ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل میخواں کی حکومت نے گزشتہ ماہ اسکولوں میں عبایا پہننے پر پابندی عائد کی تھی اور کہا تھا کہ تعلیمی اداروں میں عبایا پہننا سیکولرازم کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

فرانس میں مسلم خواتین کے سرپر اسکارف پہننے پر پہلے ہی پابندی ہے اور ایسا کرنا مذہبی وابستگی کے اظہار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

فرانس میں بسنے والے مسلمانوں کی ایک نمائندہ تنظیم ایکشن فار دی رائٹس آف مسلمز (اے ڈی ایم) نےاعلیٰ ترین عدالت ریاستی کونسل سے استدعا کی تھی کہ عبایا اور مردوں کے لباس قمیض پر پابندی کے خلاف حکم امتناع جاری کیا جائے۔

مسلم تنظیم کا مؤقف تھا کہ یہ پابندی امتیازی ہے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کے ساتھ ساتھ نسلی پروفائلنگ کو بھڑکا سکتی ہے۔

فرانس: صدارتی انتخاب میں مسلمانوں کی مشکل
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:01 0:00

عدالت نے دو روز تک مسلم تنظیم کی درخواست پر سماعت کے بعد جمعرات کو تنظیم کے دلائل کو مسترد کر دیا ہے۔

عدالت نے کہا کہ عبایا پہننا "مذہبی اثبات کی منطق کی پیروی کرتا ہے اور یہ کہ پابندی کا فیصلہ فرانسیسی قانون پر مبنی ہے جو کسی کو بھی اسکولوں میں مذہبی وابستگی کے واضح نشانات پہننے کی اجازت نہیں دیتا۔"

عدالت نے کہا کہ حکومت کی طرف سے پابندی سے "ذاتی زندگی کے احترام، مذہب کی آزادی، تعلیم کے حق، بچوں کی بھلائی یا عدم امتیاز کے اصول کو سنگین یا واضح طور پر غیر قانونی نقصان نہیں پہنچا۔"

کونسل کے فیصلے سے قبل فرانس کی حکومت کے سامنے مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے قائم کی گئی تنظیم" کونسل آف دی مسلم فیتھ" نے خبردار کیا تھا کہ عبایا پر پابندی سے "امتیازی سلوک کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔"

سماعت کے دوران اے ڈی ایم کے وکیل ونسنٹ برینگارتھ نے عدالت میں دلیل دی کہ عبایا کو روایتی لباس سمجھا جانا چاہیے، مذہبی نہیں۔

انہوں نے حکومت پر پابندی سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا الزام بھی لگایا۔

تنظیم کے صدر سیہم زائن نے الزام لگایا کہ یہ طریقہ "جنس پرست" اقدامات کے زمرے میں آتا ہے کیوں کہ یہ لڑکیوں کو الگ کرتا ہے اور عربوں کو نشانہ بناتا ہے۔

تاہم فرانس کی وزارت تعلیم کا مؤقف ہے کہ عبایا پہننے والوں کو مخصوص مذہب سے تعلق رکھنے والے کے طور پر فوری طور پر پہچانا جا سکتا ہے اور اس وجہ سے یہ فرانس کی سیکولر ثقافت کے خلاف ہے۔

واضح رہے کہ فرانسیسی اسکولوں نے پیر کے روز تعلیمی سال کے پہلے دن درجنوں لڑکیوں کو اپنے عبایا اتارنے سے انکار کرنے پر گھر بھیج دیا تھا۔

وزیر تعلیم گیبریل اٹل نے کہا تھا کہ تقریباً 300 اسکولوں کی طالبات نے پابندی پر عمل کرنے سے انکار کیا تھا۔

اعلیٰ عدالت یعنی ریاستی کونسل نے سال 2016 میں ایک فرانسیسی تفریحی مقام فرینچ روی آرا میں مسلم عورتوں کے سوئمنگ سوٹ برقینی کے خلاف پابندی کو کالعدم قرار دیا تھا۔ اس وقت عدالت نے کہا کہ وہ کچھ مسلم خواتین کے پہننے والے لمبے سوٹ سے امن عامہ کے لیے کوئی خطرہ نہیں دیکھتی۔

سرکاری اندازوں کے مطابق فرانس کی 67 ملین آبادی میں سے تقریباً 10 فی صد مسلمان ہیں۔ان میں زیادہ تر شمالی افریقی ممالک الجیریا، مراکش اور تیونس سے آئے ہوئے تارکین وطن ہیں۔ یہ ممالک 20ویں صدی کے دوسرے نصف حصے تک فرانس کی کالونیاں تھے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے' اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG