امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کوکئی لوگ ٹرانزیکشنل ریلیشن شپ یا کاروباری رشتہ قرار دیتے ہیں ۔۔۔لیکن پاکستانی نوجوانوں کے لئے امریکی حکومت کے تعلیمی پروگرامز کی عمر تقریبا اتنی ہی پرانی ہے جتنی پاکستان کی اپنی تاریخ ۔ اس سال امریکہ پاکستان میں اپنے فل برائٹ پروگرام کی ساٹھواں سالگرہ منارہا ہے ۔
الینا رومانووسکی ،جو تعلیمی و ثقافتی تبادلے کے شعبے کی معاون امریکی وزیر خارجہ ہیں،کہتی ہیں کہ انیس سو پچاس میں شروع ہونےو الے اس تعلیمی اور ثقافتی پروگرام کے ذریعےگزشتہ ساٹھ سال میں دو ہزار چار سو پاکستانیوں نے امریکہ سے اعلی تعلیم حاصل کی ہے ۔گزشتہ پانچ سالوں میں اس پروگرام کے تحت نو سو سینتالیس جبکہ اس سال ۳۸۰تین سو اسی پاکستانی نوجوان امریکی یونیورسٹیز میں پی ایچ ڈی کرنے آئے ہیں ۔ الینا روما نووسکی کہتی ہیں کہ ان تمام نو سوسینتالیس پاکستانیوں میں، جو پچھلے پانچ سالوں میں پڑھنے کے لئے امریکہ آئے ، بیالیس فیصد خواتین تھیں جبکہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ پاکستان کے چوہتر شہروں سے طالبعلم امریکہ لانے میں کامیاب ہوا ۔۔۔
الینا رومانووسکی کہتی ہیں کہ ہمارے پاس ہمیشہ گرانٹس سے کہیں زیادہ امیدوارہوتے ہیں ۔اور ہم اس پروگرام کی پاکستان میں کامیابی کا اندازہ کئی طریقوں سے لگاتے ہیں جیسے کہ پاکستان میں کئی اہم ملکی رہنما فل برائٹ پروگرامز کے تحت امریکہ سے تعلیم یافتہ ہیں ۔پاکستانی یونیورسٹیوں کے ۹ وائس چانسلر فل برائٹرزرہ چکے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ فل برائٹ پروگرام کا عملہ اپنے طلبہ سے بعد میں بھی تعلق قائم رکھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ وہ واپس اپنے ملک اوراپنے اداروں میں جاکر کیا خدمات انجام دیتے ہیں ۔ الینا روما نووسکی کہتی ہیں کہ یہ ایک دو طرفہ مفادات پر مبنی پروگرام ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے طلبہ اپنے اپنے ملک کو درپیش معاملات اور دنیا اور خطے کے دو طرفہ مسائل کے حل کے لئے نئے راستے تلاش کریں ۔۔
یہ دو طرفہ مفادات ہیں ، یا دو طرفہ دلچسپی مگر امریکہ کی مختلف ریاستوں کے کالجز میں ایک اور امریکی تعلیمی پروگرام نیسا یعنی نئیر ایسٹ اینڈ ساوتھ ایشیا ایکسچینج پروگرام کے تحت آنے والے چار پاکستانی نوجوانوں سندس مطلوب ، جنید حفیظ ، رفیع اللہ خان اور انیل کمار کا کہنا ہے کہ انہیں امریکہ میں اپنی تعلیمی قابلیت بڑھانے کے ساتھ ساتھ اخبارات کی سنسنی خیزی سے باہر اس امریکہ کو دیکھنے کا موقعہ ملا ہے جسے پاکستان میں لوگ نہیں جانتے ۔۔۔
پاکستانی طالبہ سندس مطلوب کہتی ہیں کہ یہ امریکہ سے پاکستان کا ایک بہت مثبت امیج لے کر واپس جا رہی ہیں ۔ ۔ ان کا خیال ہے کہ امریکہ کے تعلیمی نظام میں پریکٹیکل تعلیم پر زیادہ زور ہے ۔جو طالبعلموں کو پروفیشنل لائف میں بھی بہت کام آتا ہے ۔
راجن پور ڈیرہ غازی خان کے جنید حفیظ کا کہنا ہے کہ ان کو دیکھ کر امریکیوں کے پاکستانیوں کے بارے میں تعصبات کم ہوئے ہیں ۔یہ کہتے ہیں کہ جو چیزیں یہ ملتان اور راجن پور میں رہ کر سوچتے تھے کہ ایک سوسائٹی کو ایسا ہونا چاہئے کہ ہر انسان کی شخصی آزادی کا احترام کیا جائے ، کوئی اس کے کام اور ذاتی عقائد میں مداخلت نہ کرے، ویسا معاشرہ انہوں نے امریکہ آکر دیکھا ہے ۔ یہ اب اسی امیدکے ساتھ پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں کہ یہ چیز پاکستانی معاشرے میں منتقل کر سکیں تاکہ ہر شخص کو اپنی انفرادیت کے اظہار کی آزادی ہو ۔
مینگورہ سوات سے تعلق رکھنے والے رفیع اللہ بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی سے پیٹرولئیم اور گیس انجینئیرنگ میں گریجویشن کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ امریکہ میں تعلیمی لحاظ سے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے لیکن یہ اپنی ذاتی دلچسپی کے مشاغل سکیٹنگ اور سکیئینگ بھی سیکھ رہے ہیں ۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم اس ایکسچینج پروگرام کے تحت امریکہ اس لئے آئے ہیں کہ یہاں لوگوں کو بتائیں کہ سارے پاکستانی طالبان نہیں ہیں ، وہ امن چاہتے ہیں ۔۔
حیدر آباد سندھ سے تعلق رکھنے والے انیل کمار لاہور سکول آف مینجمنٹ سائنسز سے اکاونٹنگ اینڈ فنانس میں ماسٹرز کر رہے ہیں اوران دنوں نیویارک سٹیٹ یونیورسٹی میں ہیومن ریسورسز کے طالبعلم ہیں ۔ یہ کہتے ہیں کہ امریکہ آنے کے بعد ان کی کوشش تھی کہ ہر جگہ پاکستان کا نام آگے بڑھایا جائے ۔ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے امریکہ آکر یہ سیکھا کہ اگر آپ کو کوئی تبدیلی لانی ہے تو اس کے درست طریقے موجود ہیں اور اب ان کے لئے چیلنج یہ ہوگا کہ پاکستان میں ویسی تبدیلی لانے کے لئے کون سے طریقے اپنانے ہیں ۔ انہیں امید ہے کہ یہ پاکستان کی توانائیوں کا رخ مثبت سمت میں موڑ سکیں گے ۔
ایک ایسے وقت میں جب ماہرین پاکستان کوایک پیچیدہ ملک قرار دے رہے ہیں ، بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے دفاعی تجزیہ کار بروس رائیڈل کا کہنا ہے کہ کہ تعلمے پاکستان کو مسائل سے نکالنے کی بڑی حکمت عملی کا حصہ ہونی چاہئے ۔ جس میں گورنینس کو بہتر کر نا ، تعلیمی شعبے کوبہتر کر نا اور انفرا سٹرکچر کو بہتر کر نا شامل ہو ۔۔۔۔۔کیری لوگر بل جس پر صدر اوباما نے گزشتہ سال دستخط کئے ایسے ہی وسائل فراہم کرنے کی کوشش ہے ۔۔لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ
امریکہ پاکستان کو ٹھیک نہیں کر سکتا ۔ صرف پاکستانی ہی پاکستان کو ٹھیک کر سکتے ہیں ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستانی نوجوانوں کو علم سے دوستی کرنا سکھا کر خود کش جیکٹس باندھنے سے بچایا جا سکتا ہے یا پھر تعلیم ، ترقی اور امن کے رشتے پر تحقیق کرنے والےپاکستانی مملکت اور معاشرے کے مختلف خلاوں میں رہنے والوں کی قومی غیرت اور قومی ترقی کے درمیان موجود کچھ اہم سچائیوں کو نظر انداز کر رہے ہیں؟۔۔ ماہرین چاہے پاکستان کے ہوں یا امریکہ کے۔۔شائد ان میں سے کسی کے پاس ایسے کسی سوال کا درست جواب موجود نہیں لیکن وہ یہ مانتے ہیں کہ پاکستان کی بقا کا راز انہی سوالوں کے جوابوں میں ہے ۔۔۔۔