رسائی کے لنکس

استنبول کانفرنس: کیا طالبان ’مان‘ جائیں گے؟


دوحہ مذکرات میں شریک طالبان وفد، فائل فوٹو
دوحہ مذکرات میں شریک طالبان وفد، فائل فوٹو

صدر بائیڈن کی جانب سے افغانستان سے انخلا کی نئی تاریخ مقرر کیے جانے کے بعد افغان طالبان ترکی کی میزبانی میں ہونے والی استنبول کانفرنس میں شرکت سے متعلق کوئی واضح موقف اختیار نہیں کر رہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں فریقوں کا انحصار اور دباؤ پاکستان پر بڑھ گیا ہے۔

ماہرین یہ بھی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ ساتھ علاقائی طاقتوں کا افغانستان امن عمل کا حصہ بننا نا گزیر ہو گیا ہے کیونکہ ان کے بقول ایک بار پھر طالبان اور امریکہ کے درمیان اعتماد کی فضا متاثر ہوئی ہے۔

وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے پاکستان سے دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے کہا کہ امریکہ کو چاہیے تھا کہ افغانستان سے انخلا کی نئی تاریخ دینے سے پہلے پاکستان اور طالبان کو اعتماد میں لیتا۔ ممکن تھا کہ طالبان امریکہ کی طرف سے نئی ڈیڈلائن کو بھی قبول کر لیتے لیکن اس اچانک اعلان سے پاکستان پر اب دونوں طرف سے، ان کے بقول، دباؤ بڑھ گیا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان طالبان کو ہر صورت استنبول کانفرنس میں لے کر آئے، جب کہ طالبان بھی پاکستان سے چاہتے ہیں کہ وہ ان پر غیر ضروری دباؤ نہ بڑھائیں۔

جنرل امجد شعیب کہتے ہیں، ’’ طالبان پاکستان سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے بیس سال مزاحمت اس لیے نہیں کہ آپ جو چاہیں وہ مانتے جائیں‘۔

اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان اس مرحلے پر کس حد تک طالبان پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟ جنرل امجد شعیب نے کہا کہ اگر حالات کا غور سے جائزہ لیا جائے تو اس وقت پاکستان سے زیادہ روس کا طالبان پر اثرو رسوخ ہے۔ روس اگر تھوڑے نوٹس پر بھی افغانستان پر کانفرنس منعقد کراتا ہے تو طالبان بخوشی اس میں شریک ہوتے ہیں۔

تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وجہ سے آج بھی تھوڑا بہت اثر رکھتا ہے کیونکہ افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان میں ہے اور کئی ایک طالبان راہنماؤں کے عزیز رشتہ دار پاکستان میں ہیں۔

عارف انصار، افغان امور کے ماہر ہیں اور وہ واشنگٹن میں قائم ادارے پولی ٹیکٹ (PoliTact) کے ساتھ چیف اینالسٹ کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

عارف انصار بھی سمجھتے ہیں کہ غیر یقینی صورت حال میں پاکستان کا کردار اہم ہو گیا ہے۔ ان کے بقول طالبان اور امریکہ دونوں نہیں چاہیں گے کہ طویل دو طرفہ مذاکرات کے بعد جب بین الافغان ڈائیلاگ کا موقع آیا ہے، صورت حال بگاڑ کا شکار ہو جائے۔ تاہم دونوں فریق اپنے اپنے موقف کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے پاکستان پر دباؤ بڑھائیں گے۔

عارف انصار کا کہنا ہے کہ طالبان استنبول کانفرنس میں شرکت کے لیے آگے چل کر آمادہ ہو سکتے ہیں۔

جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا بھی کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ طالبان استنبول کانفرنس میں اپنا دوسرے درجے کا کوئی وفد بھجوا دیں۔

بلقیس احمدی کا تعلق افغانستان سے ہے اور وہ واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک یونائیٹڈ سٹیٹس انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے وابستہ ہیں۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے صورت حال پر ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان نے محض دباؤ بڑھانے کے لیے کہا ہے کہ وہ استنبول کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے۔

ان کے بقول طالبان نے مذاکرات سے بہت کچھ حاصل کر لیا ہے، جس میں بین الاقوامی برادری سے خود کو تسلیم کروانا بھی شامل ہے۔ بلقیس احمدی کا کہنا تھا کہ طالبان اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر مستقبل میں وہ شراکت اقتدار کے کسی فارمولے کا حصہ بنتے ہیں تو ان کو بین الاقوامی برادری کی ضرورت ہو گی۔

بلقیس احمدی اس بارے میں خدشات رکھتی ہیں کہ طالبان کی سوچ میں ان بیس برسوں میں شاید ہی کوئی تبدیلی آئی ہو۔ ان کے خیال میں خواتین کے حقوق کی بات ہو یا جمہوری معاشرے کے قیام کی، طالبان آج بھی اس کے مخالف ہیں۔

ان کے بقول، طالبان جانتے ہیں کہ وہ کسی بھی جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار میں نہیں آ سکتے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری کو بھی یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ افغان عوام کی اکثریت طالبان کو واپس اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتے۔

تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ اگر امن عمل کسی بھی وجہ سے پٹڑی سے اترتا ہے تو پاکستان سمیت پورے خطے کے لیے اس کے برے اثرات ہوں گے۔

جنرل امجد شعیب کے خیال میں انہی خدشات کے پیش نظر خطے کے ممالک بالخصوص روس اور چین تیار ہیں کہ اگر امریکہ معاملے کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر افغانستان سے نکل گیا تو امن عمل کی باگ ڈور وہ سنبھال لیں گے۔

عارف انصار کا کہنا ہے کہ دنیا کے لیے اس وقت "وار آن ٹیرر" سے زیادہ عالمی طاقتوں کی آپس کی مخاصمت اہم ہو گئی ہے۔

  • 16x9 Image

    اسد حسن

    اسد حسن دو دہائیوں سے ریڈیو براڈ کاسٹنگ اور صحافتی شعبے سے منسلک ہیں۔ وہ وی او اے اردو کے لئے واشنگٹن ڈی سی میں ڈیجیٹل کانٹینٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG