لندن شہر کی سڑکوں پر چلتے ہوئے بارہا میرا سامنا دیار غیر سے آئے ہوئے طالب علموں سے ہوتا رہتا ہے۔ یوں تو ہمارے بیچ ایک رسمی سی مسکراہٹ کا ہی تبادلہ ہوتا ہے، مگر نہ جانے کیوں بارہا میرے دل میں اُن کے حالات جاننے کی جستجو پیدا ہوئی۔ مگر، ایسا کرنےمیں مجھے ہمیشہ ہی ہچکچاہٹ محسوس ہوتی رہی۔
آخر میں ان سے پوچھوں کیا؟ اُن کی داستان تو اُن کے چہروں پر لکھی ہے۔
وہ چاہےمیری پڑوسن آمنہ ہو جو پاکستان سے اسٹوڈنٹ ویزے پر برطانیہ آئی ہوئی ہیں اور ایک سیلون میں محض پندرہ پونڈ کی اجرت پر سارا دن کام کرتی ہے، یا ایرانی کیفے میں کام کرنے والی زریں جسے صبح سے رات دیر تک کام کرنے کا معاوضہ صرف بیس پونڈ ادا کیا جاتا ہے۔
ان لڑکیوں کا تعلق پاکستان کے متوسط گھرانوں سے ہے۔ اُنھیں لندن جیسے مہنگے شہر میں رہائش کےاخراجات برداشت کرنےاور اپنے خاندان کو قرضے کے بوجھ سے آزاد کرنے کے لیے سخت محنت کرنی پڑ رہی ہے۔
طاہر کی داستان:
کراچی سے اسٹوڈنٹ ویزے پر آئے ہوئے طالب علم طاہر سے میری ملاقات اس لحاظ سے دلچسپ تھی کہ اسے زیادہ بولنے کا شوق ہے اور مجھے لکھنے کا۔
طاہر کی عمر لگ بھگ پچیس برس ہوگی۔ اس سے میری ملاقات ایک ریسٹورنٹ پر ہوئی جہاں وہ ایک شیف کی حیثیت سے کام کرتا ہے اور نہ جانے اس کے ساتھ ساتھ اور کتنی ذمہ داریاں اس کے کندھوں پر موجود ہیں، جنھیں وہ انتہائی خوش اسلوبی سے انجام دے رہا ہے۔
طاہر نے مجھ سے چھٹی کے روز بات کرنے کا وعدہ کیا اور نبھایا بھی یا شاید وہ اس مسکراتے چہرے کے نقاب کو اپنی صورت سے کچھ دیر کے لیے جدا کرنا چاہتا تھا۔
طاہر نے بتایا کہ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے۔ اس کے بھائیوں نے اسے برطانیہ اس لیے بھیجا تھا کہ وہ اچھی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ رقم بھی اپنے مستقبل کے لیے محفوظ کر سکے۔
’برطانیہ میں قدم رکھتے ہی برطانوی لب و لہجے والی انگریزی زبان نےمیری پریشانی میں اضافہ کردیا۔ جتنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں جانتا تھا اُس کے ساتھ کالج کی تعلیم اور ملازمت کا حصول دونوں ہی بہت مشکل دکھائی دے رہے تھے۔‘ طاہر نے بتایا کہ اس کا کالج لندن کے عین وسط میں واقع تھاجہاں کمرے کا کرایہ باقی لندن کی نسبت دوگنا ہے۔
لہذا، اُنھوں نے بتایا کہ، اُنھوں نےلندن سے باہر اپنے رہنے کا بندوبست کیا۔
پاکستان سے لائی ہوئی رقم کمرے کے ایڈوانس اور کرایہ کی صورت میں کچھ اتنی تیزی سے خرچ ہوئی کہ کالج جانے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے میں نے سب سے پہلے ملازمت ڈھونڈنی شروع کی۔
کچھ لڑکوں کی مدد سےمجھے ایک پاکستانی ریسٹورنٹ میں کچن ہیلپر کی نوکری 150 پونڈ ہفتے پرمل گئی۔ مجھے لگا کہ اب میں باآسانی اپنے اخراجات برداشت کر پاؤں گا اور کالج میں اپنے تین سال کےڈپلومہ کورس کو مکمل کرنے کی کوشش ضرور کروں گا۔
کیا کھانا پکانا جانتے تھے؟
’نہیں۔ مجھے چائے بنانی بھی نہیں آتی تھی۔ مگر، میں نےاپنا کام بہت دلجمعی سے سیکھا اور آج اسی ریسٹورنٹ میں شیف کی جگہ کام کررہا ہوں۔ محنت میں عظمت پوشیدہ ہے۔ کاش کہ ہم اپنے وطن میں رہتے ہوئے یہ بات جان پائیں۔
میرےکالج کی فیس 7000 پونڈ سالانہ تھی، جس کا ایک تہائی میں نے کالج میں جمع کروا کر داخلہ حاصل کیا تھا۔ لہذا، کالج انتظامیہ نے تین ماہ بعد ہی مجھ سے اگلی سہ ماہی فیس کا مطالبہ کردیا۔ میرے پاس اتنی بڑی رقم موجود نہیں تھی۔ ایسی صورت حال میں مجھے اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑتے ہوئےکالج کو خیر باد کہنا پڑا۔
مجھے لندن آئے ہوئے ابھی صرف چھ ماہ کا ہی عرصہ ہوا تھا کہ حکومت نےایسے بہت سے نجی کالجوں کو بند کردیا جہاں بیرونی ممالک کے طلبا کی حاضری نہ ہونے کے برابر تھی۔ ان ہی میں میرا کالج بھی شامل تھا۔ ہمارے اسپانسرز کالج کا لائسنس ضبط ہو جانے کے باعث ہم میں سے بہت سے بیرونی طالب علموں کی حیثیت غیر قانونی ہو گئی تھی، اگرچہ ہمارے ویزا کی میعاد آئندہ سال تک کے لیے موجود تھی۔
کالج بند ہوجانے کی صورت میں طالب علموں کو تین ماہ کے اندر کسی دوسرے کالج میں داخلہ لینے کا وقت دیا جاتا ہے۔ ایک بار پھرمیں نے اپنے گھر والوں سے رقم بھجنے کی درخواست کی جس پر انھوں نے کئی لوگوں سے ادھار مانگ کر مجھےرقم بھیج دی۔ میں نےایک نئے درجہ دوئم رکھنے والےکالج میں سہ ماہی فیس جمع کرواکر داخلہ حاصل کیا۔ اس بار نئے کالج کی اسپانسرشپ پر مجھے تمام ویزا کاروائی سے گزرنا پڑا۔
ایک طویل صبرآزما انتظار کے بعد مجھے میرا ویزا کچھ ماہ قبل ہی ملا ہے جس پر صاف صاف درج ہے کہ اب مجھے برطانیہ میں کام کرنے کی اجازت حاصل نہیں رہی، جبکہ اس سے قبل اسی ویزے پر مجھے 20 گھنٹے کام کرنے کی اجازت حاصل تھی۔
’میرے حالات کا تقاضا ہے کہ میں جلد از جلد اتنی رقم کما سکوں کہ گھر والوں کا قرضہ اتار دوں۔ میری طرح اور بھی میرے ہم وطن طالب علم اسی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ اُنھیں اپنے گھروالوں کو ماہانہ گھر کے خرچ کے لیے رقم بھیجنی ہوتی ہے۔ ہم یہاں اپنی ذات پر ایک پونڈ بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے۔ آپ کو پاکستانی طالب علم مسجدوں میں کھانا کھاتے ہوئے ملیں گے یا بس کا کرایہ بچانے کی غرض سے میلوں پیدل چلتے نظر آئیں گے۔‘
’میں بھی اکثر بس کا کرایہ بچانے کے لیے رات میں اپنے ریسٹورنٹ کے نزدیکی فٹ پاتھ پر لگی بینچوں پر سوجاتا ہوں۔ مگر لندن کا موسم ہمیشہ نامہربان ہی رہتا ہے اور صبح تک اچھا خاصا بھگو کر رکھ دیتا ہے‘۔
’رہائش کے نام پر ہم چاروں لڑکوں کو ایک مخدوش عمارت کا کمرہ میسر ہے جس کی چھت ٹپکتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کے آگے میری قسمت میں کیا لکھا ہے۔ فی الحال تو مستقبل کے خوف سے میں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔‘
اُنھوں نے مزید کہا کہ، ’میرے علم میں ایسے کئی طالب علم ہیں جنھیں بیس گھنٹے سے زیادہ کام کرنے پر ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے اور میرے پاس تو کام کرنے کا حق ہی موجود نہیں ہے۔‘
اُس کی آنکھوں میں اَن دیکھا خوف نظرآرہا تھا جِس کو وہ چاہتے ہوئے بھی جھٹلا نہیں سکتا تھا۔ مجھے وہ بھول بھلیوں کے کھیل میں گم ہوجانے والا ایک کردار لگ رہا تھا جو انجانے راستے پر قدم رکھنے کے بعد منزل کے بجائے سراب کو چن لیتا ہے۔
میں نے چاہا کہ اس سے پوچھوں کہ وہ واپس کیوں نہیں چلا جاتا۔ مگر، اُس نے میرا سوال میری آنکھوں سے جان لیا اور کہنے لگا واپسی کا ارادہ تو تھا، مگر اس حال میں جانا مجھے منظور نہیں ہے۔
طاہر کی داستان سننے کے بعد میں نے لندن کے ماہر قانون دان، ڈاکٹر ملک سے اس مسئلے پر رہنمائی چاہی۔
ڈاکٹر ملک نے بتایا کہ دنیا بھر میں اسٹوڈنٹ ویزا اُنہی کو دیا جاتا ہے جو بیرون ملک جاکر تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس اپنے وطن لوٹ آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مگر بدقسمتی سے برطانیہ میں آنے والے طالب علموں کی اکثریت کا مقصد یہ نہیں ہوتا۔
اُنھوں نے اس ویزا کا غلط استعمال کیا۔ اِن لوگوں نے کالج جانے کے بجائے یہاں کُل وقتی ملازمت ختیار کرلی۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نےاس ویزے کے ذریعے برطانیہ میں مستقل سکونت کے خواب سجا رکھے تھے۔
سال 2009 ءمیں جب برطانوی بارڈر ایجنسی (ویزا اتھارٹی) نےاسٹوڈنٹ ویزے کی شرائط میں کافی نرمی کی تھی اور انگریزی زبان کا ٹیسٹ پاس کرنے کی شرط ختم کر دی گئی تھی، تو اُن ہی دنوں میں ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والےلاکھوں طالب علموں نے برطانیہ میں درجہ دوئم کے کالجوں میں داخلہ حاصل کیا۔ جبکہ، انہی کالجوں کو بری تعلیمی کارکردگی اور کلاسوں میں طلبا کی حاضری نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کی جانب سے گذشتہ برس بند کردیا گیا۔
ڈاکٹر ملک نےکہا کہ ایسےحقیقی طالب علم جو برطانیہ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرتے ہیں وہ دو سال کے پوسٹ اسٹڈی ویزا حاصل کرنے کی درخواست دینے کا حق رکھتے تھے۔
اِن دو سالوں میں انھیں ایک مقررہ آمدنی ظاہر کرنے پر' ٹیئر ون 'جنرل ویزا حاصل کرکے مستقل سکونت حاصل کرنے کی سہولت دی گئی تھی۔ مگر، بدقسمتی سے اس طریقہ کار میں بے قاعدگیوں کا پتا چلنے کے بعد اِن دونوں ویزوں کو گذشتہ برس طالب علموں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ درجہٴاول کے کالجوں میں پڑھنے والوں کے لیے اب بھی کام کرنے کی اجازت موجود ہے، جبکہ وہ اپنے اہل خانہ کو برطانیہ بلوانے کے بھی مجاز ہیں۔ لیکن، درجہ دوئم کے کالجوں میں پڑھنے والے طالب علموں پر ملازمت کرنے پر پابندی لگادی گئی ہے۔
میرے ایک سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ فی الحال طالب علموں کے پاس واپس جانے کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔
البتہ، کسی لائسنس رکھنے والی کمپنی کی جانب سے ملازمت کی پیشکش ہونے پر اُنھیں ’ورک پرمٹ‘ حاصل ہو سکتا ہے۔ مگر، اِس ویزے کی شرائط کافی سخت ہیں۔
اپنے موجودہ ’اسٹوڈنٹس ویزے‘ کو ’بزنس ویزا‘ سے بدلنے کے لیے بھی اُنھیں واپس جاکر اپنے ملک سے درخواست دینی ہوگی۔
آخر میں ان سے پوچھوں کیا؟ اُن کی داستان تو اُن کے چہروں پر لکھی ہے۔
وہ چاہےمیری پڑوسن آمنہ ہو جو پاکستان سے اسٹوڈنٹ ویزے پر برطانیہ آئی ہوئی ہیں اور ایک سیلون میں محض پندرہ پونڈ کی اجرت پر سارا دن کام کرتی ہے، یا ایرانی کیفے میں کام کرنے والی زریں جسے صبح سے رات دیر تک کام کرنے کا معاوضہ صرف بیس پونڈ ادا کیا جاتا ہے۔
ان لڑکیوں کا تعلق پاکستان کے متوسط گھرانوں سے ہے۔ اُنھیں لندن جیسے مہنگے شہر میں رہائش کےاخراجات برداشت کرنےاور اپنے خاندان کو قرضے کے بوجھ سے آزاد کرنے کے لیے سخت محنت کرنی پڑ رہی ہے۔
طاہر کی داستان:
کراچی سے اسٹوڈنٹ ویزے پر آئے ہوئے طالب علم طاہر سے میری ملاقات اس لحاظ سے دلچسپ تھی کہ اسے زیادہ بولنے کا شوق ہے اور مجھے لکھنے کا۔
طاہر کی عمر لگ بھگ پچیس برس ہوگی۔ اس سے میری ملاقات ایک ریسٹورنٹ پر ہوئی جہاں وہ ایک شیف کی حیثیت سے کام کرتا ہے اور نہ جانے اس کے ساتھ ساتھ اور کتنی ذمہ داریاں اس کے کندھوں پر موجود ہیں، جنھیں وہ انتہائی خوش اسلوبی سے انجام دے رہا ہے۔
طاہر نے مجھ سے چھٹی کے روز بات کرنے کا وعدہ کیا اور نبھایا بھی یا شاید وہ اس مسکراتے چہرے کے نقاب کو اپنی صورت سے کچھ دیر کے لیے جدا کرنا چاہتا تھا۔
طاہر نے بتایا کہ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے۔ اس کے بھائیوں نے اسے برطانیہ اس لیے بھیجا تھا کہ وہ اچھی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ رقم بھی اپنے مستقبل کے لیے محفوظ کر سکے۔
’برطانیہ میں قدم رکھتے ہی برطانوی لب و لہجے والی انگریزی زبان نےمیری پریشانی میں اضافہ کردیا۔ جتنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں جانتا تھا اُس کے ساتھ کالج کی تعلیم اور ملازمت کا حصول دونوں ہی بہت مشکل دکھائی دے رہے تھے۔‘ طاہر نے بتایا کہ اس کا کالج لندن کے عین وسط میں واقع تھاجہاں کمرے کا کرایہ باقی لندن کی نسبت دوگنا ہے۔
لہذا، اُنھوں نے بتایا کہ، اُنھوں نےلندن سے باہر اپنے رہنے کا بندوبست کیا۔
پاکستان سے لائی ہوئی رقم کمرے کے ایڈوانس اور کرایہ کی صورت میں کچھ اتنی تیزی سے خرچ ہوئی کہ کالج جانے کا ارادہ ترک کرتے ہوئے میں نے سب سے پہلے ملازمت ڈھونڈنی شروع کی۔
کچھ لڑکوں کی مدد سےمجھے ایک پاکستانی ریسٹورنٹ میں کچن ہیلپر کی نوکری 150 پونڈ ہفتے پرمل گئی۔ مجھے لگا کہ اب میں باآسانی اپنے اخراجات برداشت کر پاؤں گا اور کالج میں اپنے تین سال کےڈپلومہ کورس کو مکمل کرنے کی کوشش ضرور کروں گا۔
کیا کھانا پکانا جانتے تھے؟
’نہیں۔ مجھے چائے بنانی بھی نہیں آتی تھی۔ مگر، میں نےاپنا کام بہت دلجمعی سے سیکھا اور آج اسی ریسٹورنٹ میں شیف کی جگہ کام کررہا ہوں۔ محنت میں عظمت پوشیدہ ہے۔ کاش کہ ہم اپنے وطن میں رہتے ہوئے یہ بات جان پائیں۔
میرےکالج کی فیس 7000 پونڈ سالانہ تھی، جس کا ایک تہائی میں نے کالج میں جمع کروا کر داخلہ حاصل کیا تھا۔ لہذا، کالج انتظامیہ نے تین ماہ بعد ہی مجھ سے اگلی سہ ماہی فیس کا مطالبہ کردیا۔ میرے پاس اتنی بڑی رقم موجود نہیں تھی۔ ایسی صورت حال میں مجھے اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑتے ہوئےکالج کو خیر باد کہنا پڑا۔
مجھے لندن آئے ہوئے ابھی صرف چھ ماہ کا ہی عرصہ ہوا تھا کہ حکومت نےایسے بہت سے نجی کالجوں کو بند کردیا جہاں بیرونی ممالک کے طلبا کی حاضری نہ ہونے کے برابر تھی۔ ان ہی میں میرا کالج بھی شامل تھا۔ ہمارے اسپانسرز کالج کا لائسنس ضبط ہو جانے کے باعث ہم میں سے بہت سے بیرونی طالب علموں کی حیثیت غیر قانونی ہو گئی تھی، اگرچہ ہمارے ویزا کی میعاد آئندہ سال تک کے لیے موجود تھی۔
کالج بند ہوجانے کی صورت میں طالب علموں کو تین ماہ کے اندر کسی دوسرے کالج میں داخلہ لینے کا وقت دیا جاتا ہے۔ ایک بار پھرمیں نے اپنے گھر والوں سے رقم بھجنے کی درخواست کی جس پر انھوں نے کئی لوگوں سے ادھار مانگ کر مجھےرقم بھیج دی۔ میں نےایک نئے درجہ دوئم رکھنے والےکالج میں سہ ماہی فیس جمع کرواکر داخلہ حاصل کیا۔ اس بار نئے کالج کی اسپانسرشپ پر مجھے تمام ویزا کاروائی سے گزرنا پڑا۔
ایک طویل صبرآزما انتظار کے بعد مجھے میرا ویزا کچھ ماہ قبل ہی ملا ہے جس پر صاف صاف درج ہے کہ اب مجھے برطانیہ میں کام کرنے کی اجازت حاصل نہیں رہی، جبکہ اس سے قبل اسی ویزے پر مجھے 20 گھنٹے کام کرنے کی اجازت حاصل تھی۔
’میرے حالات کا تقاضا ہے کہ میں جلد از جلد اتنی رقم کما سکوں کہ گھر والوں کا قرضہ اتار دوں۔ میری طرح اور بھی میرے ہم وطن طالب علم اسی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں۔ اُنھیں اپنے گھروالوں کو ماہانہ گھر کے خرچ کے لیے رقم بھیجنی ہوتی ہے۔ ہم یہاں اپنی ذات پر ایک پونڈ بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے۔ آپ کو پاکستانی طالب علم مسجدوں میں کھانا کھاتے ہوئے ملیں گے یا بس کا کرایہ بچانے کی غرض سے میلوں پیدل چلتے نظر آئیں گے۔‘
’میں بھی اکثر بس کا کرایہ بچانے کے لیے رات میں اپنے ریسٹورنٹ کے نزدیکی فٹ پاتھ پر لگی بینچوں پر سوجاتا ہوں۔ مگر لندن کا موسم ہمیشہ نامہربان ہی رہتا ہے اور صبح تک اچھا خاصا بھگو کر رکھ دیتا ہے‘۔
’رہائش کے نام پر ہم چاروں لڑکوں کو ایک مخدوش عمارت کا کمرہ میسر ہے جس کی چھت ٹپکتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کے آگے میری قسمت میں کیا لکھا ہے۔ فی الحال تو مستقبل کے خوف سے میں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔‘
اُنھوں نے مزید کہا کہ، ’میرے علم میں ایسے کئی طالب علم ہیں جنھیں بیس گھنٹے سے زیادہ کام کرنے پر ڈی پورٹ کیا جا چکا ہے اور میرے پاس تو کام کرنے کا حق ہی موجود نہیں ہے۔‘
اُس کی آنکھوں میں اَن دیکھا خوف نظرآرہا تھا جِس کو وہ چاہتے ہوئے بھی جھٹلا نہیں سکتا تھا۔ مجھے وہ بھول بھلیوں کے کھیل میں گم ہوجانے والا ایک کردار لگ رہا تھا جو انجانے راستے پر قدم رکھنے کے بعد منزل کے بجائے سراب کو چن لیتا ہے۔
میں نے چاہا کہ اس سے پوچھوں کہ وہ واپس کیوں نہیں چلا جاتا۔ مگر، اُس نے میرا سوال میری آنکھوں سے جان لیا اور کہنے لگا واپسی کا ارادہ تو تھا، مگر اس حال میں جانا مجھے منظور نہیں ہے۔
طاہر کی داستان سننے کے بعد میں نے لندن کے ماہر قانون دان، ڈاکٹر ملک سے اس مسئلے پر رہنمائی چاہی۔
ڈاکٹر ملک نے بتایا کہ دنیا بھر میں اسٹوڈنٹ ویزا اُنہی کو دیا جاتا ہے جو بیرون ملک جاکر تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس اپنے وطن لوٹ آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
مگر بدقسمتی سے برطانیہ میں آنے والے طالب علموں کی اکثریت کا مقصد یہ نہیں ہوتا۔
اُنھوں نے اس ویزا کا غلط استعمال کیا۔ اِن لوگوں نے کالج جانے کے بجائے یہاں کُل وقتی ملازمت ختیار کرلی۔ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نےاس ویزے کے ذریعے برطانیہ میں مستقل سکونت کے خواب سجا رکھے تھے۔
سال 2009 ءمیں جب برطانوی بارڈر ایجنسی (ویزا اتھارٹی) نےاسٹوڈنٹ ویزے کی شرائط میں کافی نرمی کی تھی اور انگریزی زبان کا ٹیسٹ پاس کرنے کی شرط ختم کر دی گئی تھی، تو اُن ہی دنوں میں ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والےلاکھوں طالب علموں نے برطانیہ میں درجہ دوئم کے کالجوں میں داخلہ حاصل کیا۔ جبکہ، انہی کالجوں کو بری تعلیمی کارکردگی اور کلاسوں میں طلبا کی حاضری نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کی جانب سے گذشتہ برس بند کردیا گیا۔
ڈاکٹر ملک نےکہا کہ ایسےحقیقی طالب علم جو برطانیہ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرتے ہیں وہ دو سال کے پوسٹ اسٹڈی ویزا حاصل کرنے کی درخواست دینے کا حق رکھتے تھے۔
اِن دو سالوں میں انھیں ایک مقررہ آمدنی ظاہر کرنے پر' ٹیئر ون 'جنرل ویزا حاصل کرکے مستقل سکونت حاصل کرنے کی سہولت دی گئی تھی۔ مگر، بدقسمتی سے اس طریقہ کار میں بے قاعدگیوں کا پتا چلنے کے بعد اِن دونوں ویزوں کو گذشتہ برس طالب علموں کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ درجہٴاول کے کالجوں میں پڑھنے والوں کے لیے اب بھی کام کرنے کی اجازت موجود ہے، جبکہ وہ اپنے اہل خانہ کو برطانیہ بلوانے کے بھی مجاز ہیں۔ لیکن، درجہ دوئم کے کالجوں میں پڑھنے والے طالب علموں پر ملازمت کرنے پر پابندی لگادی گئی ہے۔
میرے ایک سوال پر اُن کا کہنا تھا کہ فی الحال طالب علموں کے پاس واپس جانے کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔
البتہ، کسی لائسنس رکھنے والی کمپنی کی جانب سے ملازمت کی پیشکش ہونے پر اُنھیں ’ورک پرمٹ‘ حاصل ہو سکتا ہے۔ مگر، اِس ویزے کی شرائط کافی سخت ہیں۔
اپنے موجودہ ’اسٹوڈنٹس ویزے‘ کو ’بزنس ویزا‘ سے بدلنے کے لیے بھی اُنھیں واپس جاکر اپنے ملک سے درخواست دینی ہوگی۔