متحدہ عرب امارات نے افرادی قوت برآمد کرنے والوں ملکوں سے سیاحت کے بہانے روزگار کی تلاش میں اس خلیجی ریاست کا رُخ کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کے لیے سیاحوں کو ویزے کا اجراء یونیورسٹی کی ڈگری سے مشروط کردیا ہے۔
روزنامہ’گلف نیوز‘ نے کہا ہے کہ اس اقدام کے بعد بھارت، پاکستان، بنگلادیش اورسری لنکا سے الیکٹریشن، پائپ مستری، میسن (معمار)، ڈرائیور، درزی اور صفائی ستھرائی کا کام کرنے والے اب سیاحتی ویزے حاصل نہیں کرسکیں گے۔
یہ افراد عمومی طور پر تعلیم یافتہ نہیں ہوتے اور ایک امیگریشن افسر نے اخبار کو بتایا ہے کہ سیاحتی ویزا حاصل کرنے کے لیے ڈگری پیش کرنے کی شرط سے امارات میں غیر قانونی طور پران کے داخلے کو روکنے میں مدد ملے گی۔
‘‘فیڈرل ریزیڈینسی ڈپارٹمنٹ۔۔۔ نے سیاحتی دوروں اور کانفرنسوں میں شرکت کے ویزوں کے اجراء کے حوالے سے قوانین سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ افرادی قوت برآمد کرنے والوں ملکوں سے غیر قانونی طور پر داخلوں کو روکا جاسکے۔‘‘
امیگریشن افسر کے بقول اس اقدام سے منظم جرائم اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے ملک میں داخلے کے خطرات میں بھی نمایاں کمی آئے گی۔
متحدہ عرب امارات کے ویزوں کا انتظام عام طور پر ہوٹلوں، فضائی کمپنیوں اور ٹریول ایجنٹوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
متحدہ عرب امارات خاص طور پر دبئی میں سیاحت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جہاں 2011ء میں سیاحوں کی تعداد 93 لاکھ رہی جوگزشتہ سال کے مقابلے میں 10 فیصد زائد تھی۔
اس خلیجی ریاست میں لاکھوں غیر ملکی ہنرمند اور مزدور کام کرتے ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق جنوبی ایشیاء کے ملکوں سے ہے۔
2010ء کے اختتام پر ریاست کی آبادی اندازاً 82 لاکھ تھی جس میں متحدہ عرب امارات کے شہریوں کی تعداد محض گیارہ اعشاریہ سنتالیس فیصد ہے۔
روزنامہ’گلف نیوز‘ نے کہا ہے کہ اس اقدام کے بعد بھارت، پاکستان، بنگلادیش اورسری لنکا سے الیکٹریشن، پائپ مستری، میسن (معمار)، ڈرائیور، درزی اور صفائی ستھرائی کا کام کرنے والے اب سیاحتی ویزے حاصل نہیں کرسکیں گے۔
یہ افراد عمومی طور پر تعلیم یافتہ نہیں ہوتے اور ایک امیگریشن افسر نے اخبار کو بتایا ہے کہ سیاحتی ویزا حاصل کرنے کے لیے ڈگری پیش کرنے کی شرط سے امارات میں غیر قانونی طور پران کے داخلے کو روکنے میں مدد ملے گی۔
‘‘فیڈرل ریزیڈینسی ڈپارٹمنٹ۔۔۔ نے سیاحتی دوروں اور کانفرنسوں میں شرکت کے ویزوں کے اجراء کے حوالے سے قوانین سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ افرادی قوت برآمد کرنے والوں ملکوں سے غیر قانونی طور پر داخلوں کو روکا جاسکے۔‘‘
امیگریشن افسر کے بقول اس اقدام سے منظم جرائم اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے ملک میں داخلے کے خطرات میں بھی نمایاں کمی آئے گی۔
متحدہ عرب امارات کے ویزوں کا انتظام عام طور پر ہوٹلوں، فضائی کمپنیوں اور ٹریول ایجنٹوں کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
متحدہ عرب امارات خاص طور پر دبئی میں سیاحت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جہاں 2011ء میں سیاحوں کی تعداد 93 لاکھ رہی جوگزشتہ سال کے مقابلے میں 10 فیصد زائد تھی۔
اس خلیجی ریاست میں لاکھوں غیر ملکی ہنرمند اور مزدور کام کرتے ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق جنوبی ایشیاء کے ملکوں سے ہے۔
2010ء کے اختتام پر ریاست کی آبادی اندازاً 82 لاکھ تھی جس میں متحدہ عرب امارات کے شہریوں کی تعداد محض گیارہ اعشاریہ سنتالیس فیصد ہے۔